اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) آئی ایم ایف کی ٹیم اور حکومت کے درمیان تکنیکی مذاکرات کے پہلے دور کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ قرض دینے والا ادارہ ہماری سوچ سے بھی زیادہ سخت شرائط عائد کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق نیتھن پورٹر کی سربراہی میں آئی ایم ایف کے وفد نے 31 جنوری کو نویں جائزے کی تکمیل پر حکومت کے ساتھ حتمی مذاکرات شروع کیے تھے۔
بڑے مالیاتی خلا کی نشاندہی اور انہیں پر کرنے کے طریقوں پر چار روزہ بحث اسلام آباد میں ہوئی جس میں 7 سے زائد محکموں کے نمائندے شریک ہوئے۔بات چیت میں اخراجات اور محصولات کی کارکردگی کی تفصیلات پر تبادلہ خیال کیا گیا تاکہ موجودہ مالی سال کے اگلے 4 ماہ کے دوران کیے جانے والے محصولات اور نان ریونیو پالیسی اقدامات کی نشاندہی کی جا سکے۔
ملاقات سے واقف ذرائع کے آئی ایم ایف کا سب سے مشکل مطالبہ یہ ہے کہ 300 یونٹ سے کم استعمال کرنے والے صارفین کا استثنیٰ ختم کی جائے جو کہ بجلی کی لائف لائن ہے
ایسے صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں اضافے سے غریب طبقہ بری طرح متاثر ہوگا تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف یونٹ کی حد 300 سے کم کرکے 200 تک کرنے کو بھی تیار نہیں۔
آئی ایم ایف کے مطابق معیشت کے لیے سب سے بڑا خطرہ توانائی کے شعبے کی ناقص کارکردگی ہے جس کا گردشی ہوا قرضہ 29 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
اس رقم میں مزید اضافہ آئی ایم ایف کے لیے تشویش کا باعث ہے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے متعدد اقدامات کیے جانے کا امکان ہے جن میں برآمدی صنعتوں کو توانائی کی سبسڈی کا خاتمہ بھی شامل ہے۔
صنعتکار پہلے ہی توانائی کی سبسڈی کے ممکنہ خاتمے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں، لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نہ صرف ریوولنگ کریڈٹ میں بڑے پیمانے پر کمی چاہتا ہے بلکہ اسے دوبارہ بڑھنے سے بھی روکنا چاہتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں خسارے میں جانے والے سرکاری اداروں کی تیزی سے نجکاری پر بھی بات ہوئی تاہم اس کے حتمی نکات تکنیکی مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں طے کیے جانے کا امکان ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ‘یہ تمام اقدامات مثبت بنیادی توازن کو ظاہر کرنے کے لیے ہیں اور وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی بھی زیر غور ہے
آئی ایم ایف کا ایک اور بڑا مطالبہ ڈیزل پر موجودہ پیٹرولیم لیوی کو 40 روپے سے بڑھا کر 50 روپے کرنا ہے جو 15 فروری کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے متوقع اعلان سے ظاہر ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ بھاری اضافی ٹیکسوں اور نان ٹیکس اقدامات پر بھی پیر سے بات چیت شروع ہونے کا امکان ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ فنڈ نے مالیاتی فرق کے حتمی سائز کی وضاحت نہیں کی اور یہ طے کرنا قبل از وقت ہے کہ نئے ٹیکس اور غیر ٹیکس اقدامات کے ذریعے کتنا اضافہ کیا جائے گا۔
فی الحال، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ریکارڈ مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے 77 کھرب روپے کے محصولات کا ہدف حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
مالیاتی فرق کے حجم کے مطابق 100 ارب روپے سے زائد کے ریونیو اقدامات کیے جانے کا امکان ہے۔
اس کے علاوہ فنڈ کا سب سے اہم مطالبہ غیر محدود درآمدات کی بحالی ہے۔ لیٹر آف کریڈٹس نہ کھلنے کی وجہ سے اس وقت 9 ہزار کنٹینرز ملکی بندرگاہوں پر پھنسے ہوئے ہیں جب کہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر صرف 3 ارب 100 ملین ڈالر ہیں۔