اردوورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز)پارلیمنٹیرینز کی قومی سلامتی اور انٹیلی جنس کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق کینیڈا کے معاملات میں مداخلت کی بھارت کی کوششیں چین کے برابر نہیں ہیں، لیکن وہ گہری تشویش کا باعث ضرور ہیں۔
وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے بھارتی حکومت پر ہردیپ سنگھ ننجر قتل کیس میں ملوث ہونے کے الزام کے نو ماہ بعد ایک چونکا دینے والی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بھارت کینیڈا کی جمہوریت کے لیے دوسرا سب سے بڑا غیر ملکی خطرہ بن گیا ہے۔ سکیورٹی ماہرین اس رپورٹ میں کیے گئے دعوے سے کسی حد تک متفق نظر آتے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ نئی دہلی کئی دہائیوں سے بھارتی نژاد لوگوں کے ذریعے کینیڈین سیاستدانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق حکومت ہند کینیڈین معاشرے کے مختلف طبقات کے ذریعے مقامی حکومت کے ہر حکم کو متاثر کرنا چاہتی ہے جس کا بنیادی مقصد حکومت ہند کے تنقیدی بیانات یا پالیسیوں کو بے اثر کرنا ہے۔ رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ بھارت خفیہ طور پر اپنے مفادات کو آگے بڑھانے اور کینیڈین سیاست دانوں پر اثر انداز ہونے کے طریقے تلاش کر رہا ہے۔ کینیڈین اس مقصد کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں جن کی سرگرمیوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ کسی غیر ملکی حکومت کے لیے کام کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے ایک حصے میں کینیڈین انٹیلی جنس ایجنسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہاؤس آف کامنز میں مسائل اٹھانے سے لے کر حکومت کے تمام سطحوں پر سیاست دانوں کو بھارت سے فنڈز مل رہے ہیں۔ یہی نہیں نسلی میڈیا کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے اور کچھ منتخب نمائندے جان بوجھ کر غیر ملکی حکومتوں کے لیے کام کرنے والوں کی مدد کرتے ہیں۔ کچھ ارکان پارلیمنٹ نے تمام حدیں پار کرتے ہوئے کینیڈین حکومت کی خفیہ معلومات بھارتی حکام کو فراہم کیں۔ واضح رہے کہ پارلیمنٹیرینز کی قومی سلامتی اور انٹیلی جنس کمیٹی میں ہر جماعت سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ اور سینیٹ ممبران شامل ہیں۔ دوسری جانب رپورٹ میں کیے گئے تبصروں کے حوالے سے کارلٹن یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور قومی سلامتی کے سابق تجزیہ کار اسٹیفنی کارون نے کہا کہ ہندوستان کے پاس دو انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں اور وہ کینیڈا کو ایک خطرہ کے طور پر دیکھتی ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور سرگرمیاں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہیں۔ بھارتی حکومت کا خیال ہے کہ کینیڈا خالصتانی تحریک کا گڑھ ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کبھی کینیڈا میں
خالصتان کے سرگرم حامیوں پر توجہ مرکوز کی جاتی تھی لیکن اب یہ دائرہ وسیع ہو رہا ہے اور کینیڈا کے جمہوری اداروں میں مداخلت کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ دریں اثنا، حزب اختلاف کے رہنما پیئر پولیور نے لبرل حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایسے اراکین پارلیمنٹ کے ناموں کو عام کرے جو غیر ملکی حکومتوں کی مدد کرتے ہیں، لیکن عوامی تحفظ کے وزیر ڈومینیک لی بلانک نے کہا کہ محض شک کی بنیاد پر نام ظاہر کرنا مناسب نہیں ہوگا۔
108