4
اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) خلیج کے حساس سمندری خطے میں ایران کی جانب سے ایک غیر ملکی آئل ٹینکر کو مبینہ طور پر اسمگل شدہ ایندھن سمیت قبضے میں لینا
ایک بار پھر علاقائی سلامتی، توانائی کی اسمگلنگ اور بین الاقوامی بحری قوانین سے متعلق کئی اہم سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق اس ٹینکر میں 40 لاکھ لیٹر اسمگل شدہ ایندھن موجود تھا اور اس کے 16 رکنی عملے کو حراست میں لے لیا گیا، تاہم جہاز اور عملے کی شناخت ظاہر نہ کرنا شفافیت پر سوالیہ نشان ہے۔ایران اس سے قبل بھی خلیج عمان اور آبنائے ہرمز میں ایسے اقدامات کر چکا ہے، جہاں اس نے غیر ملکی جہازوں پر ایندھن اسمگلنگ کے الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں ضبط کیا۔ گزشتہ ہفتے 60 لاکھ لیٹر ڈیزل لے جانے والے ایک اور ٹینکر کی ضبطی کی خبر اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتی ہے۔ بظاہر یہ اقدامات ایران کی جانب سے ایندھن کی غیر قانونی تجارت کے خلاف کارروائی کے طور پر پیش کیے جا رہے ہیں، مگر بین الاقوامی مبصرین ان واقعات کو خطے میں بڑھتی ہوئی جیو پولیٹیکل کشیدگی کے تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں۔
ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیوں کے باعث اس کے گرد اسمگلنگ کے نیٹ ورکس اور غیر رسمی تجارت کے الزامات پہلے ہی موجود ہیں۔ ایسے میں غیر ملکی ٹینکروں کی ضبطی عالمی تجارتی برادری کے لیے تشویش کا باعث بنتی جا رہی ہے، کیونکہ خلیج کی آبی گزرگاہیں عالمی توانائی سپلائی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کسی بھی قسم کی غیر یقینی صورتحال تیل کی قیمتوں اور عالمی معیشت پر براہِ راست اثر ڈال سکتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایران ایسے اقدامات میں شفافیت اختیار کرے اور بین الاقوامی قوانین کے تحت اپنی کارروائیوں کی وضاحت پیش کرے۔ ساتھ ہی عالمی برادری کو بھی خطے میں سمندری سلامتی کو یقینی بنانے اور توانائی کی غیر قانونی تجارت کے خاتمے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی اپنانا ہوگی، تاکہ خلیج کو کسی بڑے تنازع سے محفوظ رکھا جا سکے۔