کیا طاقت کا زوال شروع ہونے والا ہے؟

کٹہرا /ایم آر ملک
کیا کھیل ختم ہو گیا؟

نہیں جناب!کھیل تو اب شروع ہوا ہے کسی بھی غریب اورپسماندہ ملک میں بادشاہ بنانے اور اُسے ہٹانے کا کھیل صرف چند گروہ ہی کھیلتے ہیں کیونکہ یہی گروہ،افرادیا خاندان ہی عوام اور ریاست کی قسمت سے کھیلنے کے حقدار ہوتے ہیں جبکہ عوام کے نعرے بلند کرنے والی اداکار ریاستوں میں غریب عوام کی حیثیت اُن مجرموں کی طرح ہوتی ہے جن کو اپنے گناہ اور جرم کا علم نہیں ہوتا لیکن وہ مسلسل اور باقاعدہ سزا پاتے رہتے ہیں تاکہ انصاف اور عدل کا جھنڈا بلند رہے اگر کوئی انصاف اور ناانصافی کے درمیان فرق کو پہچاننا پسند کرے تو یہ فرق ہر دور میں بڑا واضح رہا ہے عدالتوں کے فیصلوں کے بعد اگر معاشرے میں بغاوت ختم ہو جائے اور سماج پر سکوں ہو کر تعمیری سوچ اپنا لے تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ انسان موجود ہے اور مظلوم کو زندہ رہنے کا حق دیا جارہا ہے لیکن بصورت دیگر اگر عدالتیں دن رات فیصلے دینے میں مصروف ہوں،پولیس مقابلوں میں شرارتی انسان مارے جارہے ہوں،جلاد پھانسیوں کے تختے مسلسل گراتے جارہے ہوں معاشرہ پھر بھی خوفزدہ ہونے کے بجائے مزید بے حوصلہ اور دلیر ہوتا جارہا ہو۔بغاوت اور شکایات بڑھتی جارہی ہوں تو ہر سمجھدار انسان یہ سچ سمجھ ہی لیتا ہے کہ انصاف تو کوچ کر گیا ہے
عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان ایک طبقاتی جنگ جاری ہے جسے آپ طبقاتی انصاف بھی کہہ سکتے ہیں اس قسم کے نام نہاد انصاف آخر کار عوام کو یہاں تک تیار کرتے ہیں کہ وہ ریاست کے خلاف آمادہ جنگ ہو جاتے ہیں سوشلسٹ روس کا بکھرنا اور خود پاکستان کا دولخت ہونا فی الحقیقت ایک طبقاتی ٹکراؤ کا نتیجہ تھا پاکستان میں چار فیصلے ایسے اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے آئے جن فیصلوں کے عوام شدت کے ساتھ منتظر تھے اس میں پہلا فیصلہ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس مسٹر کارنیلس کے فیصلے کے خلاف حکومت پاکستان کی اپیل کا فیصلہ تھا سندھ ہائیکورٹ نے عوا م کی منتخب شدہ جمہوری حکومت کو بحال کر دیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے مسٹر جسٹس منیر کی سر براہی میں سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرکے جمہوریت کو پھر ختم کر دیا اس فیصلے کے بعد عوام کو احساس ہوا کہ ان کے ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور ریاست کے اقتدار اعلیٰ کا فیصلہ فی الحقیقت عوام کی بجائے کوئی اور کرتا ہے وقت گزرتا گیااور پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے سامنے ایک بہت ہی اہم مقدمہ قتل کی اپیل پیش ہوئی اس مقدمہ قتل میں اہم ترین ملزم ایک مشہور سیاست دان مسٹر ذوالفقار علی بھٹو تھے جو پاکستان کے وزیر اعظم بھی رہ چکے تھے اس ملزم کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا تھا اور ملزم پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت سے انصاف کا طلب گار تھا اس مقدمہ پر ساری دنیا کی توجہ تھی جبکہ عوام اس مقدمہ میں بڑی گہری دل چسپی رکھتے تھے اور وہ اس مقدمہ کے فیصلے کے منتظر تھے
جنرل ایوب خان کے دور کے بعد مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کا دور سیاست ایک حیرت انگیز کرشماتی دور تھا مسٹر بھٹو نے پاکستان میں عوام کے جذبات کو انتہائی حد تک بیدار کیا اس نئے انداز سیاست سے عوام کی سوچ جذباتی اور انتہا پسند بنی جس کے پس منظر میں پاکستانی سیاست طوفانی رخ اختیار کر گئی اس نئے شعور زندگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ قوم کا مزاج معتدل رہنے کی بجائے دو انتہاؤں کی طرف مڑ گیا قوم سیاسی طور پر تقسیم ہو کر دو جنگجو لشکروں کا روپ اختیا کر گئی ایک لشکر مسٹر بھٹو سے انتہائی محبت کرنے لگا جبکہ قوم کا دوسرا دھڑا اسی سیاسی رہنما سے نفرت کرنے لگا عدالت نے اس محبت اور نفرت کی طغیانیوں میں بیٹھ کر بھٹو کی اپیل اُس ملک میں مسترد کردی جہاں صرف بھٹو پرست اور بھٹو بیزار قوم رہتی تھی اس مقدمے میں سپریم کورٹ کے محترم جج صاحبان کا فیصلہ اختلافی تھا فیصلہ کرنے والے جج صاحبان نے آپس میں اختلاف کرتے ہوئے دو طرز کے فیصلے دیئے ایک طرف سے یہ فیصلہ آیا ذاولفقار علی بھٹو اس مقدمہ میں بے گناہ ہے لہٰذا ملزم کو بری کردیا جائے اسی بنچ میں دوسری طرف سے یہ فیصلہ آیا کہ مسٹر زیڈ اے بھٹو گناہگار ہے اور پھانسی پانے کا مستحق ہے چنانچہ جج صاحبان کے اختلافی فیصلوں کے باوجود انتظامیہ نے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا اس پھانسی نے عوام اور ملکی سیاست پر بڑا گہرا اثر چھوڑا اور عوام یہ کہنے پر مجبور ہوئی کہ انتظامیہ اس ملک میں عدلیہ سے زیادہ طاقتور ہے اور انتظامیہ عدلیہ کی آزادی پر ایک سوال بھی ہے
پانامہ کا مقدمہ تیسرا مقدمہ تھا جس کے فیصلے کا عوام کو شدت سے انتظار تھا فیصلہ آگیا کسی محترم جج نے وزیر اعظم کو معصوم نہیں کہا بلکہ ایک محترم جسٹس نے انتظامیہ کے سربراہ کو ”گاڈ فادر“کے لقب سے بھی نوازا مگر ایک وزیر اعظم اپنے دفتر میں تشریف فرما رہے وہ پانامہ کیس سے بری تو نہ ہوئے لیکن وزیر اعظم کی کرسی پر متمکن رہے، سابق وزیر اعظم مسٹر زیڈ اے بھٹو بری ہوئے لیکن پھانسی پاگئے،
چوتھامبینہ فیصلہ قاضی فائز عیسیٰ کے ہاتھوں پاکستان کی سب سے بڑی عوامی حمایت یافتہ پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے خلاف آیا جس میں عین اس وقت انتخابی نشان چھین لیا گیا جب پاکستان بھر کے عوام کے ووٹوں کا سارا وزن عمران خان کے پلڑے میں جانے کا خدشہ تھا اس کے باوجود عوام نے یک طرفہ فیصلہ دیا مگر عوامی فیصلے کو طاقت کے بل بوتے پر بدل دیا گیا ایک چیف جسٹس کی سہولت کاری کی وجہ سے عوام کا حق خود ارادیت چھینا گیا اسی وجہ سے آج عوام کو بدترین حالات کا سامنا ہے
وقت ہاتھوں سے نکل چکا،نیا کھیل تو اب شروع ہواہے ایک مہلک کھیل!

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو  800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنا مختصر  تعارف کے ساتھ URDUWORLDCANADA@GMAIL.COM پر ای میل کردیجیے۔

امیگریشن سے متعلق سوالات کے لیے ہم سے رابطہ کریں۔

کینیڈا کا امیگریشن ویزا، ورک پرمٹ، وزیٹر ویزا، بزنس، امیگریشن، سٹوڈنٹ ویزا، صوبائی نامزدگی  .پروگرام،  زوجیت ویزا  وغیرہ

نوٹ:
ہم امیگریشن کنسلٹنٹ نہیں ہیں اور نہ ہی ایجنٹ، ہم آپ کو RCIC امیگریشن کنسلٹنٹس اور امیگریشن وکلاء کی طرف سے فراہم کردہ معلومات فراہم کریں گے۔

ہمیں Urduworldcanada@gmail.com پر میل بھیجیں۔

     

    اردو ورلڈ، کینیڈا میں بسنے والی اردو کمیونٹی کو ناصرف اپنی مادری زبان میں قومی و بین الاقوامی خبریں پہنچاتی ہے​ بلکہ امیگرینٹس کو اردو زبان میں مفیدمعلومات فراہم کرتی اور اردوکمیونٹی کی سرگرمیوں سے باخبر رکھتی ہے-​

     

    اردو ورلڈ، کینیڈا میں اشتہارات کے لئے اس نمبر پر 923455060897+ رابطہ کریں یا ای میل کریں urduworldcanada@gmail.com

    تمام مواد کے جملہ حقوق © 2025 اردو ورلڈ کینیڈا