23
اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) امریکہ نے فلسطینی حکام کو آئندہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ویزے جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے
، جس نے عالمی سطح پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) اور فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کے ارکان کو اقوام متحدہ کے اجلاس کے لیے ویزے جاری نہیں کیے جائیں گے بلکہ پہلے سے جاری کردہ ویزے بھی منسوخ کر دیے جائیں گے۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان **ٹومی پگوٹ** نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ جب تک فلسطینی قیادت "امن کی سنجیدہ شراکت دار” ثابت نہیں ہوتی، تب تک انہیں یہ سہولت نہیں دی جا سکتی۔ ان کے مطابق فلسطینی اتھارٹی اور پی ایل او کو سب سے پہلے دہشت گردی کو مکمل طور پر مسترد کرنا ہوگا اور ریاست کو یکطرفہ طور پر تسلیم کرنے کی کوششیں ترک کرنا ہوں گی۔
محکمہ خارجہ نے یہ وضاحت بھی کی کہ اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر معاہدے کے تحت **اقوام متحدہ میں فلسطینی مشن** کو اس فیصلے سے استثنیٰ حاصل رہے گا، یعنی یہ پابندی براہ راست ان پر لاگو نہیں ہوگی، لیکن وفود کے لیے ویزے کا انکار ایک بڑی رکاوٹ پیدا کرے گا۔امریکی بیان میں مزید کہا گیا کہ فلسطینی اتھارٹی کو اپنی بین الاقوامی قانونی مہمات کو ختم کرنا چاہیے، جن میں **بین الاقوامی عدالت انصاف** اور **بین الاقوامی فوجداری عدالت** میں مقدمات اور یکطرفہ طور پر فلسطینی ریاست کے قیام کی کوششیں شامل ہیں۔
اد ھر اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصو ر نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ "ہم دیکھیں گے کہ اس فیصلے کا اصل مطلب کیا ہے اور یہ ہمارے وفود پر کس طرح لاگو ہوتا ہے، پھر اس کے مطابق جواب دیا جائے گا۔”
فلسطینی صدر کے دفتر نے بھی امریکی اقدام پر سخت مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ فلسطینی حکام کو ویزے جاری نہ کرنا "انتہائی حیران کن” ہے اور اس سے امن عمل کو نقصان پہنچے گا۔یاد رہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے جولائی 2025 میں بھی فلسطینی اتھارٹی اور پی ایل او کے اہلکاروں پر پابندیوں اور ویزا دینے سے انکار کا اعلان کیا تھا، اور یہ فیصلہ اسی سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتا ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ **کیا امریکہ فلسطینی قیادت کو عالمی سطح پر الگ تھلگ کرنے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے یا پھر یہ صرف دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ ہے؟