اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) اسرائیل نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وہ امریکی منصوبے کے تحت غزہ میں ترک فوج کی موجود گی کو کسی صورت قبول نہیں کرے گا۔
ہنگری کے دارالحکومت بڈاپسٹ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرِ خارجہ گیڈون سار (Gideon Saar) نے کہا کہ > “جو ممالک غزہ میں اپنی افواج بھیجنے کے خواہش مند ہیں، انہیں کم از کم اسرائیل کے ساتھ منصفانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ ترکی کی حکومت نے صدر اردوان کی قیادت میں اسرائیل مخالف پالیسی اپنائی ہے، اس لیے ہم ان کی فوج کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل نے اپنے امریکی اتحادیوں کو بھی یہ مؤقف واضح طور پر بتا دیا ہے کہ ترک فوج کی شمولیت ہمارے لیے ناقابلِ قبول ہے۔
گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو نے بھی اسی نوعیت کا بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کسی بھی صورت میں ترک سکیورٹی فورسز کو غزہ میں تعینات کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ان کے مطابق “غزہ میں کون سی غیرملکی افواج داخل ہوں گی، اس کا فیصلہ صرف اور صرف اسرائیل کرے گا۔”
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق،امریکی انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنی افواج غزہ میں نہیں بھیجے گی،** تاہم واشنگٹن اس وقت کئی ممالک سے رابطے میں ہے تاکہ ایک **بین الاقوامی امن فورس (International Stabilization Force) تشکیل دی جا سکے۔ان مذاکرات میں انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، مصر، قطر، ترکی اور آذربائیجان** شامل ہیں، جنہیں ممکنہ طور پر غزہ میں قیامِ امن کے لیے کردار ادا کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی اخبار "دی ٹائمز آف اسرائیل” نے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ میں دو سالہ جنگ کے بعد استحکام قائم کرنے کے لیے بنائی جانے والی بین الاقوامی فورس میں پاکستانی فوجی دستے بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔اخبار کے مطابق، اسرائیلی دفاعی حکام نے پارلیمانی اراکین کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ امریکہ کے ساتھ جاری مذاکرات میں پاکستان کا نام بھی ان ممالک میں شامل ہے جو **غزہ میں امن قائم کرنے کے لیے فوجی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب غزہ میں جنگ بندی کے بعد **علاقے کے مستقبل کے انتظامی ڈھانچے** پر بین الاقوامی سطح پر مشاورت جاری ہے۔امریکی منصوبے کے مطابق، غزہ میں کثیرالملکی امن فورس تعینات کی جائے گی جو بنیادی ڈھانچے کی بحالی، انسانی امداد کی فراہمی اور سلامتی کی نگرانی میں مدد دے گی۔تاہم اسرائیل نے واضح کر دیا ہے کہ وہ ایسے کسی بھی ملک کی شمولیت کو قبول نہیں کرے گا جو ماضی میں اسرائیل مخالف مؤقف رکھتا رہا ہو — جس میں ترکی سرفہرست ہے۔