اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) غزہ میں جنگ نہیں بچوں کا قتل عام ہو رہا ہے ، غزہ میں فوجی آپریشن کیخلاف اسرائیل میں بغاوت کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔
ذرائع کے مطابق جیسے ہی جنگ ایک نئے اور خونی مرحلے میں داخل ہو رہی ہے، کئی سیاسی اور فوجی شخصیات حکومت کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کر رہی ہیں۔اسرائیلی ڈیفنس فورسز (IDF) کے سابق ڈپٹی چیف آف اسٹاف اور بائیں بازو کے سیاست دان یائر گولن نے اسرائیلی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے سخت رائے کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا، "اگر ہم شعوری ریاستی نقطہ نظر کو نہیں اپناتے ہیں، تو اسرائیل عالمی سطح پر الگ تھلگ ریاست بن جائے گا، جیسا کہ کبھی جنوبی افریقہ تھا۔”یائر گولن نے مزید کہا کہ ایک مہذب ریاست شہریوں کے خلاف جنگ نہیں چھیڑتی، بچوں کو قتل کرنا مقصدنہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی آبادی کا انخلاء اس کا مقصد ہونا چاہیے۔.
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے یائر گولن کے بیانات کو خونی بہتان قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔اسرائیل کے سابق وزیر دفاع اور آئی ڈی ایف کے سابق چیف آف اسٹاف موشے بوگی یالون نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر زیادہ سخت گیر موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم حکومتی پالیسی ہے، جس کا واحد مقصد اقتدار کو برقرار رکھنا ہے۔ اور یہ پالیسی ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہی ہے،برطانوی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل وہی ملک ہے جہاں 19 ماہ قبل حماس کے حملے کے بعد عوام میں جنگی جذبات اپنے عروج پر تھے لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔ایک اسرائیلی نیوز چینل کے ایک حالیہ سروے کے مطابق 61 فیصد اسرائیلی شہری جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی واپسی کی حمایت کرتے ہیں جبکہ صرف 25 فیصد مزید فوجی کارروائی اور غزہ پر قبضے کے حق میں ہیں۔
اسرائیلی حکومت اب بھی حماس کو تباہ کرنے اور تمام یرغمالیوں کو بچانے کے اپنے دعوے پر قائم ہے اور وزیر اعظم نیتن یاہو نے مکمل فتح کا وعدہ کیا ہے۔ان کے کچھ حامی اب بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں، لیکن ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ بے چین، مایوس اور بے بس نظر آتا ہے۔سابق اسرائیلی یرغمالی مذاکرات کار گیرشون باسکن کے مطابق یرغمالی خاندانوں کی اکثریت جنگ کے خاتمے اور باوقار معاہدے کی خواہش رکھتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک چھوٹی سی اقلیت کا خیال ہے کہ پہلے حماس کا خاتمہ ضروری ہے جس کے بعد یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو گی۔دوسری جانب غزہ میں تباہی کے مناظر اور اسرائیل کی جانب سے 11 ہفتوں کے بعد ناکہ بندی کو جزوی طور پر ہٹانے کے باوجود اب تک صرف محدود انسانی امداد ہی اس علاقے میں داخل ہو سکی ہے۔