اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں قائم 19 یہودی بستیوں کو باقاعدہ قانونی حیثیت دے دی ہے
فلسطینی قیادت اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ فیصلہ اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) کی منظوری کے بعد سامنے آیا ہے۔ذرائع کے مطابق یہ متنازع اقدام انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ اور وزیر دفاع اسرائیل کاٹز کی جانب سے پیش کی گئی تجویز پر کیا گیا۔ اس فیصلے کے تحت وہ یہودی بستیاں، جو اب تک بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی سمجھی جاتی تھیں، اسرائیلی قانون کے مطابق باضابطہ حیثیت حاصل کر گئی ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیلی فیصلے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے فلسطینی ریاست اور عوام کے خلاف ایک خطرناک قدم قرار دیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ اسرائیل کے اصل عزائم کو بے نقاب کرتا ہے، جن میں مغربی کنارے کا الحاق، نسلی امتیاز پر مبنی نظام کو فروغ دینا اور فلسطینی علاقوں پر مکمل قبضے کو مستقل شکل دینا شامل ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ اقدام بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور دو ریاستی حل کے تصور کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے اس فیصلے کے خلاف فوری اور مؤثر اقدامات کرے اور فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق 19 یہودی بستیوں کو قانونی حیثیت دینا خطے میں کشیدگی میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے اور امن عمل کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ماضی میں بھی عالمی برادری، بشمول اقوام متحدہ اور یورپی یونین، اسرائیلی بستیوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی قرار دیتی رہی ہے۔ اس فیصلے کے بعد مغربی کنارے میں حالات مزید کشیدہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، جبکہ فلسطینی عوام میں بے چینی اور غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔