اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے کو چیلنج نہ کیا جائے تو حتمی فیصلہ ہے۔ کوئی بہانہ نہ ڈھونڈا جائے، آئین کہتا ہے 90 دن میں الیکشن، اس لیے کہنا ہمارا فرض ہے۔
لاہور کے نجی ہوٹل میں منعقدہ پاکستان کے آئین میں اقلیتوں کے حقوق کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ جسٹس اے آر کارنیلیس نے بہترین خدمات انجام دی ہیں، وہ 23 سال کی عمر میں آئے، سی ایس پاس ہوئے، جسٹس کارنیلیس سپریم کورٹ کو 17 سال دیے، وہ عدالتی نظام کے لیے امتیازی حیثیت رکھتے تھے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس اے آر کارنیلیس اچھے فقیہ اور سادگی پسند تھے۔ 1955 میں انہوں نے گورنر جنرل کی اسمبلیوں کی تحلیل کو غیر قانونی قرار دیا۔ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ پاکستان کا آئین اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ 1964 میں 2 صوبوں نے جماعت اسلامی پر پابندی عائد کی، مولانا مودودی کیس میں پابندی ہٹا دی گئی۔
چیف جسٹس نے مزید کہا ہے کہ پاکستان دو دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے، پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں 80 ہزار سے زائد جانیں گنوا چکا ہے، عدالتیں ایگزیکٹو آرڈرز پاس نہیں کرسکتیں، پاکستان کے ہر شہری کو بنیادی حقوق حاصل ہیں ۔ لیکن فیصلہ کرنا سپریم کورٹ کا حق ہے، جب سچائی سے گریز کیا جائے تو انصاف سے گریز کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ ججز میں انصاف کرنے کے لیے جسٹس کارنیلیس جیسی خصوصیات ہونی چاہئیں، عدالتوں کے فیصلوں کا اخلاقی اختیار ہوتا ہے، آئین کا تحفظ ہمارے بنیادی فرائض میں شامل ہے، جسٹس کارنیلیس نے کہا کہ ایگزیکٹو افسران بنیادی حقوق کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ ہر کوئی قانون کے تابع ہے، معاملات بات چیت سے حل ہونے چاہئیں، ہمارا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو احساس ہے کہ قانون کی پاسداری کرنا ان کا فرض ہے، ہم ان کا ساتھ دینے کے لیے موجود ہیں،