اردو ورلڈ کینیڈا (ویب نیوز) جمعیت علمائے اسلام کے وکیل نے خواجہ سراؤں کے قانون کی حمایت کا اعتراف کر لیا، جب کہ چیف جسٹس شریعت کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ جے یو آئی نے خود ہی خواجہ سرا قانون پاس کیا، یہاں کیا لینے آئی ہے؟
وفاقی شرعی عدالت میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ قانون کے خلاف دیگر درخواستیں پہلے ہی زیر سماعت ہیں۔
قائم مقام چیف جسٹس شریعت کورٹ نے پوچھا کہ آپ کی درخواست میں نیا کیا ہے؟ کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ میں اپنی پارٹی کی نمائندگی کرنا چاہتا ہوں۔
قائم مقام چیف جسٹس شریعت کورٹ نے پوچھا کہ کیا جے یو آئی قانون کی منظوری میں شامل تھی؟ کامران مرتضیٰ نے جواب دیا کہ جے یو آئی نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کی حمایت کی تھی۔
قائم مقام چیف جسٹس شریعت کورٹ نے کہا کہ قانون خود ہی پاس کرایا تو عدالت کیا لینے آئی۔ کیا جے یو آئی کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ قانون کا جائزہ لے؟ پانچ سال بعد جے یو آئی کو یاد آیا جب درجن بھر درخواستیں عدالت میں آچکی تھیں۔
وکیل جے یو آئی نے کہا کہ ہم نے صنفی تفویض کے آپشن کی فراہمی کو چیلنج کیا ہے۔
چیف جسٹس شریعت کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ آپ جس شق کا حوالہ دے رہے ہیں وہ غلط ہے، لگتا ہے آپ نے قانون نہیں پڑھا، پانچ سال پہلے آپ کو معلوم نہیں تھا کہ قانون کا غلط استعمال ہوگا۔
وکیل جے یو آئی کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اندازہ ہے کہ عدالت آنے میں تاخیر ہوئی ہے، پارلیمنٹ میں ترمیمی بل بھی پیش کیا گیا ہے، بل پرائیویٹ ممبر ڈے پر پیش کیا جائے گا۔
قائم مقام چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ انہیں عدالت آنے کی بجائے پارلیمنٹ میں بات کرنی چاہیے تھی۔
شریعت کورٹ نے جے یو آئی کی درخواست کو دیگر کیسز سے جوڑتے ہوئے ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف تمام درخواستوں کی سماعت 18 اکتوبر تک ملتوی کر دی ہے۔