اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا بینچ ٹوٹ گیا۔کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے کی، اس بار چیف جسٹس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بنچ کا حصہ بنایا۔
ان کے علاوہ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بھی بنچ کا حصہ تھے۔
تاہم چیف جسٹس نے سات رکنی نیا بنچ تشکیل دیدیا ہے جس میں یہ دونوں ججز شامل نہیں ہیں
سماعت شروع ہوتے ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ حیران ہوں کہ میرا نام کل رات آٹھ بجے کاز لسٹ میں آیا۔ اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئیں مجھے کچھ کہنا ہے۔ میں اپنی قومی زبان اردو میں بات کروں گا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر بات نہیں کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل ابھی تک نہیں بنا اور 13 اپریل کو سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ نے حکم امتناعی جاری کیا۔ سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی سماعت جولائی تک ملتوی کر دی۔ آئین سپریم کورٹ کو سماعت کا اختیار دیتا ہے، جج کا حلف کہتا ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے، پریکٹس اور طریقہ کار قانون ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل میں بینچ کا حصہ نہیں ہوں اس پر کچھ نہیں میں کہوں گا
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں نے 6 رکنی بینچ پر نوٹ لکھا جسے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کے بعد ہٹا دیا گیا۔ میں نے چیمبر کے کام کو ترجیح کیوں دی، بنچوں کی تشکیل کے حوالے سے قانون بنایا گیا، کسی پر انگلی نہیں اٹھائی گئی لیکن میرے پاس یہ اختیار تھا کہ میں حلف کی پاسداری کروں یا عدالتی حکم پر بنچ پر بیٹھوں، میرے علم میں قانون کو رد کیا جا سکتا ہے۔ معطل نہیں کیا جا سکتا۔
بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے بنچ سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے بینچ کو توڑ دیا۔
یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، سینئر ایڈووکیٹ اعتزاز احسن، کرامت علی اور چیئرمین تحریک انصاف نے درخواستیں دائر کی ہیں، درخواست گزاروں نے استدعا کی ہے کہ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔