چیف جسٹس قاضی فیض عیسیٰ نے لطیف کھوسہ کے نام کے ساتھ سردار لکھنے پر برہمی کا اظہار کیا، یہ سردار، نواب اور پیر جیسے الفاظ اب لکھنا بند کر دیں، 1976ء کے بعد سے سرداری نظام ختم ہو چکا ہے، یا تو پاکستان کا آئین چلائیں یا پھر سرداری نظام، آئین پاکستان کے ساتھ اب مذاق کرنا بند کر دیں۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرے شناختی کارڈ پر سردار لکھا ہے اس لیے عدالت میں بھی سردار لکھا گیا۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرے شناختی کارڈ پر سردار لکھا ہوا ہے تو عدالت میں سردار بھی لکھا ہوا تھا جس پر چیف جسٹس نے سردار اور نوابوں کو چھوڑنے کو کہا اب غلامی سے نکل کر سردار لکھ کر اپنا درجہ بڑھانے کی کوشش نہ کریں.
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن سے رابطہ کیا ہے. چیف جسٹس نے پوچھا کہ اب آپ کی درخواست کیا ہے
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ توہین عدالت کی درخواست ہے، نیا مقدمہ نہیں، مرکزی مقدمہ 22 دسمبر کو نمٹا دیا گیا ہے, آپ کی درخواست میں بہت سے لوگوں کے نام شامل ہیں جنہوں نے عدالت کی توہین کی ہے، کیا الیکشن کمیشن نے توہین عدالت کی ہے? کیا الیکشن کمیشن نے آپ کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا ہے
چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن نے کوئی توہین کی ہے تو ثبوت دکھائیں جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں سی ڈی لے کر آیا ہو , اس کے پاس تمام ثبوت موجود ہیں، ہمارے رہنماؤں کو اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی اجازت نہیں تھی
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ یہاں سیاسی تقریریں نہ کریں، آئین اور قانون کے بارے میں بات کریں. آپ کہہ رہے ہیں کہ آئی جی اور چیف سیکرٹری نے کارروائی کی. آئی جی اور چیف سیکرٹری کا الیکشن سے کیا تعلق ہے
بعدازاں سپریم کورٹ نے آئی جی پنجاب، چیف سیکرٹری پنجاب اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت پیر تک کیلئے ملتوی کر دی۔