ارد ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں فلسطینی عوام کے حق میں نکالے گئے پرامن احتجاج پر پولیس کا سخت کریک ڈاؤن، 466 مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔
گرفتار ہونے والوں میں ب خواتین بھی شامل ہیں۔ گرفتار شدگان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو "فلسطین ایکشن” نامی تنظیم کی حمایت کر رہے تھے، جس پر حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے قانون کے تحت پابندی عائد کی گئی ہے۔احتجا ج لندن کے تاریخی پارلیمنٹ اسکوائر میں منعقد ہوا، جس کا مقصد اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں او رفلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف عالمی توجہ مبذول کرانا تھا۔مظاہرین کے ہاتھوں میں ایسے پلے کارڈز اور بینرز تھے جن پر اسرائیلی مظالم، نسل کشی، اور مغربی ممالک کی خاموشی کے خلاف نعرے درج تھے۔ مظاہرے میں شریک افراد کا کہنا تھا کہ وہ غزہ کے نہتے شہریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی** کے لیے سڑکوں پر نکلے ہیں۔
پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ”فلسطین ایکشن گروپ پر 5 جولائی 2025 سے ٹیررازم ایکٹ کے تحت پابندی عائدہے، اور اس گروہ کی کسی بھی صورت میں رکنیت یا حمایت پر 14 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔برطانوی پولیس کا مؤقف ہے کہ گرفتار مظاہرین نے اس کالعدم گروہ کے لیے سرگرمیاں کیں، جس پر کارروائی ضروری تھی۔تاہم مظاہرین اور انسانی حقوق کے کارکنان نے اس اقدام کو **اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطین کے حق میں آواز اٹھانا دہشتگردی نہیں بلکہ انسانی حقوق کی حمایت ہے۔
مظاہرے کے منتظمین کے مطابق احتجاج میں 600 سے 700 افراد شریک ہوئے، لیکن پولیس نے اس تعداد کو غیر حقیقی قرار دیتے ہوئے کم شرکاء کا دعویٰ کیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصاویر اور ویڈیوز میں پارلیمنٹ اسکوائر لوگوں سے بھرا ہوا نظر آتا ہے۔
یاد رہے کہ حالیہ ہفتوں میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر فوجی کارروائیوں میں درجنوں فلسطینی شہری ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں **خواتین اور بچے بھی شامل ہیں**۔ عالمی سطح پر مظاہروں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، لیکن **برطانیہ میں اس نوعیت کے کریک ڈاؤن نے نئی بحث کو جنم دیا ہے — کیا فلسطین کے لیے آواز بلند کرنا دہشتگردی ہے؟