سرجن جنرل ڈاکٹر وویک مورتی اس ہفتے اقوام متحدہ کے سماجی رابطے کے کمیشن میں شامل ہوئے، جس کا مقصد عالمی تنہائی اور اس کے نتیجے میں فالج، اضطراب، ڈیمنشیا، ڈپریشن اور خودکشی کی بلند شرحوں سے نمٹنا ہے۔ گزشتہ برسوں میں تنہائی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے، لیکن کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔
دو دہائیاں قبل امریکی اپنے دوستوں کے ساتھ دن میں ایک گھنٹہ گزارتے تھے جو کہ 2020 میں کم ہو کر تقریباً 20 منٹ رہ گیا ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ امریکی سرحدوں سے باہر ہے۔ایک تحقیق کے مطابق تقریباً ایک چوتھائی بزرگ سماجی تنہائی کا شکار ہیں جب کہ پانچ سے پندرہ فیصد نوجوان اس مسئلے کا شکار ہیں۔
ڈاکٹر وویک (جو 11 رکنی اقوام متحدہ کے پینل کی شریک سربراہی کریں گے) نے کہا کہ سماجی تنہائی کے صحت اور سماجی اثرات ہیں، جن میں قلبی بیماری کے خطرے میں 30 فیصد اضافہ بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سماجی تنظیم نو میں وہی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ ہم تمباکو نوشی، منشیات کی لت جیسے دیگر عالمی صحت کے مسائل کے لیے کرتے ہیں ۔