اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز) ایرانیوں نے ریاستی کریک ڈاؤن کے باوجود حکومت مخالف مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے مظاہروں کو ایران کے دشمنوں کی طرف سے منصوبہ بند ی قرار دیا ہے
16 ستمبر کو ایران کی مورالٹی پولیس کی حراست میں 22 سالہ مہسا امینی کی موت کے بعد شروع ہونے والے مظاہرے 1979 کے انقلاب کے بعد علما کی قیادت کے لیے ایک دلیرانہ چیلنج میں تبدیل ہو گئے ہیں۔
ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ کم از کم 100 لوگوں کے ایک ہجوم نے وسطی تہران میں ایک سڑک کو بند کر دیا، اور یہ نعرے لگا رہے تھے ایک اور ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ درجنوں فسادی پولیس تہران کی ایک گلی میں تعینات ہے جہاں آگ جل رہی تھی۔
تہران میں وکلاء ایسوسی ایشن کے باہر احتجاج کے دوران آنسو گیس چلائی گئی، جہاں درجنوں کی تعداد میں مظاہرین زخمی ہوئے
انسانی حقوق کے گروپ ہینگاو کے مطابق شمال مغربی شہر بوکان میں سیکورٹی فورسز نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس سے 11 افراد زخمی ہو گئے جس نے کرمانشاہ شہر میں بھی فائرنگ کی اطلاع دی۔
کردستان کے صوبہ امینی کے مرکزی شہر سنندج میں ایک مظاہرین نے بتایا کہ گولیاں بھی چلائی گئیں۔ ا
ایران کے پولیس سربراہ حسین اشتیری نے سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا کہ بیرون ملک اپوزیشن گروپوں سے منسلک افراد نے پولیس کا بھیس بدل کر ہجوم پر فائرنگ کی۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کب اور کہاں، لیکن کہا کہ ان میں سے کچھ کو گرفتار کیا گیا ہے۔