اردوورلڈ کینیڈا( ویب نیوز)یونیورسٹی آف مونٹریال سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر آلن مورو اور ان کی ٹیم نے دائمی تھکن کے مرض (جسے میالجک اینسفیلومیلیٹس بھی کہا جاتا ہے) میں ایک اہم دریافت کی ہے۔
تحقیق میں ایک خاص لحمیہ (پروٹین) "ایس ایم پی ڈی ایل تھری بی” کو اس بیماری کی ایک ممکنہ علامت اور علاج کے ہدف کے طور پر شناخت کیا گیا ہے۔ مریضوں کے خون میں اس لحمیے کی سطح جتنی زیادہ پائی گئی، بیماری کی علامات بھی اتنی ہی شدید دیکھی گئیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لحمیہ بیماری کے بنیادی جسمانی عمل میں کردار ادا کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر مورو کے مطابق، جسم میں موجود ایک خامرہ (انزائم) "پی آئی پی ایل سی” اس لحمیے کو خلیے کی جھلی سے علیحدہ کر دیتا ہے۔ اگر اس خامرے کو روکا جائے تو غیر معمولی لحمیہ کم خارج ہوتا ہے اور جسمانی مدافعت بہتر ہو سکتی ہے۔ تجرباتی طور پر ایسی دوائیں بھی استعمال کی گئیں جو اس خامرے کو روکنے میں مدد دیتی ہیں، اور نتائج حوصلہ افزا رہے۔ڈاکٹر مورو نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ لحمیہ واحد حل نہیں لیکن یہ پیچیدہ اور مختلف اقسام کی بیماری کے مریضوں میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
Montreal researchers studied 249 ME patients and found that elevated SMPDL3B in blood tracks with symptom severity.
Two diabetes drugs, vildagliptin and saxagliptin, reversed this effect in immune cells, hinting at a new treatment path.https://t.co/fYwOGQ44ln
— thetranscendedman (@atranscendedman) July 8, 2025
ان کا کہنا تھا کہ ہم گزشتہ دہائی کے مقابلے میں کہیں زیادہ تیزی سے تحقیق میں آگے بڑھ رہے ہیں، اور یہ مریضوں کے لیے امید کی کرن ہے۔یاد رہے کہ دائمی تھکن کا مرض ایک پیچیدہ حالت ہے جس میں اعصابی، عضلاتی اور مدافعتی نظام متاثر ہوتے ہیں۔ اس کی سب سے نمایاں علامت یہ ہے کہ معمولی جسمانی یا ذہنی مشقت کے بعد علامات میں شدت آ جاتی ہے۔تحقیق میں یہ بھی مشاہدہ کیا گیا کہ یہ لحمیہ ان مریضوں میں بھی زیادہ مقدار میں پایا گیا ہے جو طویل عرصے سے کووڈ کے بعد کی پیچیدگیوں کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ دریافت اس مرض کی بہتر سمجھ، علاج اور جلد تشخیص کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔