22
اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) امریکا کی ریاست منی سوٹا میں ایک اور خونی سانحہ کے بعد قانون ساز اور ہتھیاروں پر پابندی کے حامی کارکنان سراپا احتجاج ہیں منی اپولس کے ایک کیتھولک چرچ میں ہونے والی فائرنگ میں دو بچے جاں بحق اور 18 افراد زخمی ہو گئے، جن میں زیادہ تر بچے شامل ہیں۔ اس واقعے نے ایک بار پھر امریکا میں بڑھتی ہوئی بندوق تشدد پر سخت غم و غصہ اور قانون سازی کا مطالبہ تیز کر دیا ہے۔
چرچ پر حملہ — معصوم بچوں کو نشانہ بنایا گیا
پولیس کے مطابق حملہ آور کے پاس ایک رائفل، پستول اور شاٹ گن تھی، جو سب قانونی طور پر خریدی گئی تھیں۔ اس نے چرچ کی **شیشے کی کھڑکیوں پر 116 گولیاں برسائیں جبکہ بچے تعلیمی سال کے آغاز کی دعائیہ تقریب کے لیے بیٹھے ہوئے تھے۔
8 اور 10 سال کے دو بچے موقع پر جاں بحق ہوئے۔ 15 بچے اور 3 معمر افراد زخمی ہوئے، جن میں سے ایک بچہ اب بھی تشویشناک حالت میں ہے۔
میئر جیکب فری کا دوٹوک مؤقف
منی اپولس کے میئر جیکب فری نے ایک پریس کانفرنس میں مطالبہ کیا کہ ریاستی اور وفاقی سطح پر آٹو میٹک رائفلز اور ہائی کیپیسٹی میگزینز پر فوری پابندی لگائی جائے۔ ان کا کہنا تھا > "یہ شکار کی بندوقیں نہیں بلکہ ایسے ہتھیار ہیں جو بکتر بند جیکٹ کو بھی چھید دیتے ہیں۔ کوئی وجہ نہیں کہ کوئی شخص بغیر رکے 30 گولیاں داغ سکے۔”انہوں نے اس دعوے کو بھی مسترد کیا کہ یہ محض ذہنی صحت کا مسئلہ ہے> "یہ سیدھا سیدھا ہتھیاروں کا مسئلہ ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ بندوقوں کے بارے میں نہیں ہے، وہ حقیقت سے منہ موڑ رہے ہیں۔”
"دعائیں نہیں، عملی اقدامات چاہئیں”
سماجی تنظیم مومز ڈیمانڈ ایکشن کی ڈائریکٹر اینجیلا فیرل-زبالا نے کہا > "ہر بار یہی کہا جاتا ہے: ’خیالات اور دعائیں‘، لیکن دعائیں ان بچوں کو نہیں بچا سکیں جو چرچ میں دعا کے دوران گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ اب بہانے ختم، ہمیں عملی اقدام چاہیے۔”انہوں نے مزید کہا کہ ایک 10 سالہ بچہ، جو دوست کے جسم کے پیچھے چھپ کر اپنی جان بچانے کی کوشش کر رہا تھا، نے ان سیاستدانوں سے زیادہ ہمت دکھائی جو بندوق لابی کے سامنے جھکے ہوئے ہیں۔
ارکانِ کانگریس کا ردعمل
مینیسوٹا کی کانگریس رکن الہان عمر جو بچپن میں صومالیہ کی خانہ جنگی سے بچ کر امریکا آئی تھیں، نے کہا کہ انہوں نے جنگ میں بھی ایسی صورتحال کی توقع نہیں کی تھی "میں آٹھ سال کی عمر میں جنگ سے گزری ہوں، لیکن کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ امریکا میں بچے ’ایکٹیو شوٹر ڈرلز‘ کی مشقیں کریں گے۔ اس ملک میں کچھ نہ کچھ بنیادی طور پر ٹوٹا ہوا ہے۔”
حملہ آور کی تفصیلات
منی اپولس پولیس چیف برائن اوہارا کے مطابق حملہ آور کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں تھا اور نہ ہی اسے کبھی ذہنی صحت کے مسائل کے باعث زیرِ نگرانی رکھا گیا تھا۔ اس لیے کوئی رکاوٹ اسے ہتھیار خریدنے سے نہ روک سکی۔
تحقیقات کے مطابق حملہ آور کو **امریکا کے مشہور ترین اسکول اور چرچ شوٹرز** سے "فلسفیانہ لگاؤ” تھا اور وہ انہیں "ہیرو” سمجھتا تھا۔ امریکی اٹارنی **جوزف تھامسن* نے کہا حملہ آور شہرت حاصل کرنا چاہتا تھا اور نفرت کی آگ میں جل رہا تھا۔”
امریکا میں بندوق تشدد کی بڑھتی لہر
گن وائلنس آرکائیو کے مطابق 27 اگست تک رواں سال امریکا میں **286 بڑے فائرنگ کے واقعات پیش آ چکے ہیں، جن میں چار یا اس سے زیادہ افراد ہلاک یا زخمی ہوئے۔
یہ اعداد و شمار اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ امریکا میں بندوقوں تک آسان رسائی کس قدر مہلک ثابت ہو رہی ہے۔
سیاسی تقسیم اور مستقبل کی بحث
امریکا میں ہتھیاروں پر پابندی ایک **انتہائی سیاسی مسئلہ** ہے۔ ریپبلکن رہنما زیادہ تر ہتھیاروں کی ملکیت کو آئینی حق قرار دیتے ہیں جبکہ ڈیموکریٹس اور انسانی حقوق کے کارکنان مؤقف رکھتے ہیں کہ آٹو میٹک ہتھیاروں اور بڑی میگزینز پر پابندی ناگزیر ہے۔