ایک رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) طاقتور حلقوں کے ساتھ اپنے موجودہ تعلقات کا دفاع کر رہی ہے اور اس بات پر حیرانی کا اظہار کر رہی ہے کہ جب پارٹی کو کبھی بھی انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم نہیں کیا گیا تو کیوں؟ اب ایسا سوال اٹھایا جا رہا ہے؟
پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی جانب سے پیدا کیے گئے اس تاثر سے پریشان ہیں کہ وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے نئے کٹھ پتلی ہیں اور ان مقدمات میں عدالتوں سے کلین چٹ ملنے کے بعد اقتدار میں واپس آنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے 40 سے زائد ارکان پر مشتمل پارٹی کی نئی منشور کمیٹی کو ہدایت کی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی ہونے اور لاڈلہ ہونے کا تاثر مٹانے کے لیے بیانیہ تیار کرے۔
مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ روز 30 ذیلی کمیٹیاں بھی تشکیل دی ہیں جن سے کہا گیا ہے کہ وہ 20 نومبر تک سفارشات فراہم کریں تاکہ نیا منشور تیار کیا جا سکے جو عوام کے لیے قابل قبول ہو۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حال ہی میں شریف برادران کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے اور ان پر ‘ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو ترک کرنے اور سلیکٹرز کے ساتھ ملی بھگت کا الزام لگایا ہے۔
یاد رہے کہ ‘سلیکٹرز’وہ اصطلاح ہے جسے مسلم لیگ (ن) سابق وزیراعظم عمران خان کو اقتدار حاصل کرنے کے لیے سپورٹ فراہم کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔
یہاں تک کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کو کنگزقرار دیتے ہوئے کہا کہ جہاں تک انتخاب اور لاڈلے کی سیاست کا تعلق ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ لاڈلے سیاستدانوں کو چننے کی روایت ختم ہونے کے لیے ہمیں مزید لڑنا پڑے گا۔