اردوورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد گزشتہ چھ ہفتوں سے جب مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر تمام سیاسی جماعتیں انتخابی سرگرمیوں اور رابطہ مہم میں مصروف ہیں، پاکستان تحریک انصاف کو وہاں جلسے کرنے کی اجازت نہیں ملتی اور بعض اوقات ایسا کرنے کی کوشش کرنے والوں پر کریک ڈاؤن کیا جاتا ہے۔
ایک طرف تو نواز شریف کو ان مقدمات میں ریلیف مل رہا ہے، جسے ان کی جماعت ماضی میں سیاسی انتقام قرار دیتی رہی ہے تو دوسری طرف عمران خان ایسے مقدمات میں زیر سماعت رہے ہیں جن کو ‘ماضی میں سیاسی انتقام قرار دیا جا رہا ہے تھا
‘پہلے لاڈلا کوئی اور تھا، اب لاڈلا کوئی اور ہو گیا ہے عمران خان جب اسٹیبلشمنٹ کے ڈارلنگ تھے تو ان پر احسانات ہوئے۔ اب جب تک نواز شریف چہیتے رہیں گے تب تک احسانات بھی ملتے رہیں گے۔ اس طرح کے جملے کم و بیش ہر وہ شخص سنتا ہے جس سے انتخابات اور مہم کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔
ان کا اشارہ حال ہی میں نواز شریف سمیت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنماؤں کو ملنے والا ریلیف ہے، لیکن سیاسی تجزیہ کار پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے وابستہ ‘لاڈلے کی یہ اصطلاح ملک میں جمہوریت اور جمہوریت کے لیے استعمال ہوتی ہے
نواز شریف اور ان کی جماعت کو آج اسٹیبلشمنٹ کا ‘پسندیدہ قرار دینے کی وجہ عدالتوں سے ملنے والا ریلیف ہے اور اس ریلیف کی سب سے بڑی مثال ایون فیلڈ کیس ہے جسے ان کی پارٹی نے ‘سیاسی انتقام پر مبنی مقدمہ قرار دیا۔ .
واضح رہے کہ جولائی 2018 میں عدالت نے نواز شریف کو لندن کے مہنگے ترین علاقے میں سے ایک میں چار اپارٹمنٹس کی خریداری کے لیے منی ٹریل فراہم نہ کرنے پر دس سال قید کی سزا سنائی تھی۔ شریف خاندان پر الزام تھا کہ انہوں نے یہ جائیدادیں غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی گئی رقم سے خریدیں۔
نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو بھی اسی کیس میں معاونت کرنے کے جرم میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھیجو کچھ عرصہ قبل ختم کر دی گئی ہے۔
نواز شریف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ استغاثہ نواز شریف کے خلاف کوئی بھی الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا اور یہ بھی ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ نواز شریف کے بچے ان کی زیرکفالت ہیں۔
نیب کے نمائندے نے نواز شریف کے وکیل کے دلائل کے خلاف کوئی دلیل نہیں دی اور عدالت نے نواز شریف کی سزا منسوخ کر دی
اس کے علاوہ نیب نے فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں دائر کی گئی اپیل واپس لے لی، جس میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو بری کیا تھا، اس طرح کیس ختم ہوگیا۔
اس کیس میں نواز شریف پر الزام تھا کہ وہ اپنے بیٹے کی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر ہیں جو انہوں نے کبھی ظاہر نہیں کیا تاہم معاملہ ایون فیلڈ کیس تک محدود نہیں ہے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کے علاوہ ان کی جماعت کے دیگر رہنما بھی گزشتہ چند ماہ سے نرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو آمدن سے زائد اثاثوں کے ریفرنس میں ستمبر میں بری کر دیا تھا۔ ان کے اثاثے بحال کرنے کا حکم بھی جاری کیا۔
یہی صورتحال سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی جو پنجاب کے وزیر صحت رہے ان کے کیسز میں بھی نظر آتی ہے۔ دونوں سیاستدانوں کے خلاف پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی میں بے ضابطگیوں کے ریفرنس تھے جس میں نیب عدالت نے 11 اکتوبر کو دونوں کو بری کر دیا تھا۔ان کے خلاف مقدمہ 2018 میں قائم ہوا تھا۔
سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے خلاف کیس میں سپریم کورٹ نے اینٹی نارکوٹکس فورس کی ان کی ضمانت منسوخی کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ان کی ضمانت برقرار رکھی۔ ا نہیں جولائی 2019 میں منشیات رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ نے ایفیڈرین کوٹہ کیس میں سابق رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی کی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کردیا یہ مقدمہ ان کے خلاف 2018 میں درج کیا گیا تھالیکن 2018 میں اقتدار میں آنے والی عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کو بالکل مختلف صورتحال کا سامنا ہے۔
پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما گرفتار ہیں یا اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کی وجہ سے مبینہ طور پر پارٹی سے منحرف ہو چکے ہیں۔ اس تمام صورتحال میں حلقہ کی سطح پر پی ٹی آئی کی انتخابی مہم نہ ہونے کے برابر ہے۔
حال ہی میں اپر دیر میں ورکرز کنونشن کے دوران پی ٹی آئی کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسی طرح کرک، سوات اور ایبٹ آباد ورکرز کنونشن کے دوران بھی ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی۔ پشاور اور کراچی میں پی ٹی آئی کو یہ کنونشن منسوخ کرنا پڑے کیونکہ مقامی حکام نے انہیں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ سکیورٹی خدشات کے باعث اجازت نامے جاری نہیں کیے جا رہے، تاہم یہ بھی واضح ہے کہ پی ٹی آئی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں مکمل آزادی کے ساتھ انہی علاقوں میں اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انتخابی سرگرمیوں کے سلسلے میں ان کی جماعت کو جلسے اور جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے لیکن خط کے جواب میں انہیں کہا گیا کہ چیف جسٹس اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں اور کسی کے دبائو میں نہیں آئیں بجائے نوٹس لینے کے لئے طنزیہ طریقے سے خط کا جواب دیا گیا
تو کیا یہ حقیقت ہے کہ دیگر جماعتوں اور خاص طور پر سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی جماعت کو پی ٹی آئی کے مقابلے میں خصوصی رعایتیں دی جارہی ہیں؟عوام اور خاص کر نوجوان سوشل میڈیا پر اپنے جذبات کا اظہار کررہے ہیں کہ ایک بار الیکشن ہولینے دینے پتہ چل جائے گاایسی صورتحال میں طاقتور حلے اور ادارے پریشان ہیں اور یہ بھی شنید ہے کہ الیکشن ہی ملتوی نہ کردئیے جائیں ۔