اردوورلڈکینیڈا( ویب نیوز)البرٹا کے وزیرِ خزانہ نیٹ ہورنر کا کہنا ہے کہ ہڑتال پر موجود اساتذہ کی یونین اور صوبائی حکومت کے درمیان مطالبات اور بجٹ میں اب بھی بڑا فرق موجود ہے، جبکہ اساتذہ کا مؤقف ہے کہ وہ غیر حقیقی مطالبات نہیں کر رہے۔
یہ صوبے بھر میں جاری اساتذہ کی ہڑتال بدھ کے روز اپنے ساتویں دن میں داخل ہوگئی ہے، جس سے تقریباً 7 لاکھ 40 ہزار طلبہ اور 2 ہزار 500 اسکول متاثر ہیں۔
البرٹا ٹیچرز ایسوسی ایشن (ATA) کی جانب سے منگل کے روز نیا معاہدہ تجویز کیا گیا، جو ہڑتال کے آغاز (6 اکتوبر) کے بعد پہلا مذاکراتی اجلاس تھا، تاہم ملاقات کسی آئندہ تاریخ کے بغیر ختم ہوگئی۔
وزیرِ خزانہ نیٹ ہورنر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ یونین کا حالیہ مطالبہ “بہت زیادہ ہے کیونکہ اسے پورا کرنے کے لیے حکومت کو طے شدہ بجٹ سے تقریباً 2 ارب ڈالر زیادہ خرچ کرنا ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا کل بجٹ 2.6 ارب ڈالر ہے جو چار سال پر محیط ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تنازع کے اہم نکات تنخواہیں اور تدریسی حالات ہیں۔یونین زیادہ تنخواہوں کے ساتھ ساتھ کلاسوں میں طلبہ کی تعداد محدود کرنے کا بھی مطالبہ کر رہی ہے۔
یونین کے صدر جیسن شلنگ نے کہا کہ اساتذہ کے مطالبات حقیقت پر مبنی ہیں۔حکومت نے پوچھا تھا کہ اساتذہ کیا چاہتے ہیں، ہم نے انہیں دکھا دیا،” انہوں نے کہا۔
حکومت کی پچھلی پیشکش، جسے اساتذہ نے بھاری اکثریت سے مسترد کر دیا تھا، میں چار سال کے دوران 12 فیصد تنخواہ میں اضافہ اور 3 ہزار نئے اساتذہ کی بھرتی کا وعدہ شامل تھا۔
ہورنر کا کہنا ہے کہ حکومت تنخواہوں کے معاملے پر مزید نرمی نہیں دکھائے گی۔ہماری آخری پیشکش بہت منصفانہ تھی اور دیگر سرکاری ملازمین کے معاہدوں کے مطابق تھی،” انہوں نے کہا۔
انہوں نے اشارہ دیا کہ اگر ہڑتال جاری رہی تو حکومت اکتوبر کے آخر میں اسمبلی کے اجلاس کے دوران “بیک ٹو ورک” قانون متعارف کروا سکتی ہے تاکہ طلبہ جلد از جلد اسکول واپس جا سکیں۔
ایک بیان میں ہورنر نے کہا کہ حکومت اسی ہفتے دوبارہ مذاکرات شروع کرنا چاہتی ہے، لیکن “ATA اور ان کے اراکین کو حقیقت پر مبنی حل کے ساتھ آنا ہوگا۔
یونین کے صدر جیسن شلنگ نے جواب دیا، “اگر حقیقت دیکھنی ہے تو ہمارے کلاس رومز میں آئیں۔ ہم انہی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں جو حکومت کی ناکامیوں کا نتیجہ ہیں۔
دوسری جانب، وزیرِ اعلیٰ ڈینیئل اسمتھ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ کلاسوں میں طلبہ کی تعداد پر حد مقرر کرنا آسان نہیں۔
انہوں نے کہا کہ “اعداد و شمار کے مطابق، ہر کلاس میں اوسطاً 21 طلبہ ہونے چاہییں، مگر کئی اساتذہ کی کلاسوں میں 30 سے زائد طلبہ موجود ہیں۔
اپوزیشن لیڈر نہید نینشی نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “غیر حقیقی رویہ دراصل حکومت کا ہے۔ اساتذہ ایک ایسے نظام میں کام کر رہے ہیں جو بکھر رہا ہے۔ طلبہ، چاہے خصوصی ضروریات والے ہوں یا نہیں، مناسب تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے، انہوں نے کہا۔نینشی نے کہا کہ ان کی جماعت “بیک ٹو ورک” قانون کی مخالفت کرے گی کیونکہ یہ “غیر منصفانہ” ہے اور “یہ والدین، اساتذہ اور طلبہ کے مسائل حل نہیں کرے گا۔