اردوورلڈکینیڈا( ویب نیوز)اقوام متحدہ نے ایران کے جوہری پروگرام پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ایک بار پھر اسلحے کی خرید و فروخت سمیت کئی سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
یہ فیصلہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی درخواست پر کیا گیا جنہوں نے ایران پر 2015 کے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا تھا۔ یورپی ممالک کا کہنا ہے کہ ایران معاہدے کی شرائط پر مکمل عمل درآمد نہیں کر رہا، جبکہ ایران کا موقف ہے کہ اس کا پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اور ایٹمی ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں۔
نئی پابندیوں کے تحت ایران کی یورینیم افزودگی اور بیلسٹک میزائل سرگرمیوں پر قدغن لگا دی گئی ہے، حساس جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی روکی گئی ہے، درجنوں ایرانی شہریوں اور اداروں کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں اور ان پر سفری پابندیاں بھی نافذ ہوں گی۔
ایران نے ان اقدامات پر سخت ردعمل دیتے ہوئے برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا۔ ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے کہا کہ ایران جوہری عدم پھیلاؤ معاہدے (NPT) سے نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن اپنے دفاعی اور پرامن جوہری حقوق کا تحفظ کرے گا۔
روس نے سلامتی کونسل کے اس فیصلے کو "غیر قانونی” قرار دے کر مخالفت کی، جبکہ اسرائیل نے اسے سراہتے ہوئے کہا کہ دنیا کو ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے ہر صورت روکنا چاہیے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کے مطابق سفارتکاری کا دروازہ اب بھی کھلا ہے، لیکن ایران کو سنجیدہ اور براہِ راست مذاکرات کے لیے تیار ہونا ہوگا۔
پابندیوں کے اعلان کے بعد ایران کی معیشت مزید دباؤ کا شکار ہو گئی اور ریال کی قدر گر کر ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں ریکارڈ کم ترین سطح یعنی 11 لاکھ 23 ہزار ریال تک پہنچ گئی۔