اردورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) جنوبی ایشیا کی دو روایتی حریف ٹیموں،پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری سیاسی و سفارتی کشیدگی ایک بار پھر کھیلوں کے میدان پر اثر انداز ہو گئی ہے۔
ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) نے ایشیا کپ 2025 کو بھارت میں منعقد کرنے کے بجائے متحدہ عرب امارات (دبئی) منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ایونٹ کی میزبانی بھارت کرے گا، لیکن مقام دبئی ہوگامیڈیا رپورٹس کے مطابق ایشیا کپ 2025 ستمبر میں منعقد کیا جائے گا، اور اس کی رسمی میزبانی بھارت کے پاس رہے گی، تاہم تمام میچز دبئی اور ممکنہ طور پر شارجہ یا ابوظہبی میں کھیلے جائیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا مقصد پاک بھارت میچ کو یقینی بنانا ہے جو ایک "ہائی وولٹیج” مقابلہ سمجھا جاتا ہے۔
بھارت نے ماضی میں بھی پاکستان میں کھیلنے سے انکار کیا تھا۔ 2023 کے ایشیا کپ کے دوران بھی بھارت نے پاکستان آنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے میچز سری لنکا میں کھیلے تھے۔ اسی طرح 2025 کی چیمپئنز ٹرافی جو پاکستان میں منعقد ہونی ہے، اس کے بھارتی میچز بھی ممکنہ طور پر دبئی یا کسی نیوٹرل وینیو پر ہوں گے۔
چونکہ ایشیا کپ 2025 کا انعقاد T20 ورلڈ کپ 2026 سے چند ماہ قبل ہو رہا ہے، اس لیے ایونٹ ٹی 20 فارمیٹ میں کھیلا جائے گا۔ یہ فارمیٹ ٹیموں کو ورلڈ کپ کی تیاری کا موقع فراہم کرے گا۔
ایشیا کپ دنیا بھر میں کرکٹ شائقین کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ٹورنامنٹ ہے، خاص طور پر پاک بھارت میچز ہر بار دنیا بھر کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔ غیر جانبدار مقام پر ایونٹ منعقد کرنے کا مقصد ان سنسنی خیز مقابلوں کو یقینی بنانا اور سیکیورٹی یا سفارتی خدشات سے بچاؤ ہے۔
ذرائع کے مطابق ایشین کرکٹ کونسل ایونٹ کی تیاریاں تیزی سے مکمل کر رہی ہے اور جلد ہی مکمل شیڈول، وینیوز، اور ٹکٹنگ تفصیلات کا باضابطہ اعلان کر دیا جائے گا۔ حالیہ برسوں میں ایشیائی کرکٹ کی سیاست2023 ایشیا کپ کی میزبانی پاکستان کے پاس تھی، لیکن بھارت نے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کر دیا اور اس کے میچز سری لنکا منتقل کیے گئے۔2025 چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی بھی پاکستان کو دی گئی ہے، لیکن بھارت کے میچز ایک بار پھر نیوٹرل وینیو پر ہو ئے۔دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ سیریز گزشتہ ایک دہائی سے تعطل کا شکار ہے، اور ٹیمیں صرف آئی سی سی یا اے سی سی کے ایونٹس میں ایک دوسرے کے خلاف کھیلتی ہیں۔
ایشیا کپ 2025 کا دبئی منتقلی ایک عملی فیصلہ ہے تاکہ شائقین کرکٹ کو بغیر کسی رکاوٹ کے روایتی حریفوں کے درمیان دلچسپ مقابلے دیکھنے کو مل سکیں۔ تاہم، اس فیصلے نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ کب تک سیاست کھیلوں کو متاثر کرتی رہے گی، اور کیا جنوبی ایشیا میں کرکٹ ایک بار پھر سفارتی پل بن سکے گی؟