اردوورلڈکینیڈا( ویب نیوز)پاکستان نے استنبول مذاکرات کے میزبانوں کی درخواست برقرار رکھنے کے بعد افغان طالبان کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ پاکستانی وفد، جو وطن واپسی کے لیے تیار تھا، اب مزید قیام کرے گا تاکہ مذاکراتی عمل از سرِ نو جاری رکھا جا سکے۔
ذرائع نے بتایا کہ اس بار مذاکرات کا محور وہی مرکزی شرط رہے گا جو پاکستان پہلے بھی رکھتا آیا ہے یعنی افغانستان کی سرزمین کو دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دینا اور مغربی سرحد کے خلاف دہشت گردی کے واقعات کے تدارک کے لیے واضح، قابلِ تصدیق اور مؤثر اقدامات کیے جائیں۔ پاکستان نے دوبارہ زور دیا ہے کہ کابل فریق عملی یقین دہانی کرائے کہ اس کی زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔
گزشتہ استنبول مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے تھے۔ وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے پہلے بھی کہا تھا کہ مذاکرات کا بنیادی ایجنڈا سرحد پار دہشت گردی کی روک تھا، مگر افغان وفد نے ٹھوس ضمانتیں دینے سے گریز کیا۔ پاکستان نے مبینہ دہشت گردانہ کارروائیوں کے ثبوت بھی پیش کیے جنہیں میزبانوں اور افغان وفد نے قبول تو کیا مگر قابلِ عمل یقین دہانی نہیں دی گئی۔
دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف نے واضح کیا ہے کہ اگر سرحدی حدود کی خلاف ورزی ہوئی تو پاکستان بھرپور جواب دینے سے گریز نہیں کرے گا اور ضرورت پڑنے پر افغانستان کے اندر بھی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ استنبول مذاکرات کے بعد ثالث فریقین پر یہ بات عیاں ہے کہ کابل کی نیت کیا ہے۔
سابق بیانات میں خواجہ آصف نے اشارہ دیا تھا کہ اگر حالات ضرورت بنیں تو طالبان حکومت کو کمزور کر کے ایک مثال قائم کی جا سکتی ہے۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ ازسرِنو مذاکرات امن کے حصول کی راہ میں کس حد تک نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں اور کیا معاملات پر عملی پیش رفت ممکن ہو پائے گی۔