اردوورلڈکینیڈا( ویب نیوز)قطر کے دارالحکومت دوحا میں عرب اسلامی ہنگامی سربراہ اجلاس کے موقع پر عرب نیوز چینل الجزیرہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جائے گا، چاہے مخالف کوئی بھی ملک کیوں نہ ہو۔
انہوں نے قطر پر حالیہ اسرائیلی حملے کو عالمی قوانین، اقوام متحدہ کے چارٹر اور مسلم دنیا کی خودمختاری پر براہِ راست حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر اسلامی ممالک محض بیانات تک محدود رہے تو یہ دو ارب مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے حکمرانوں کی ناکامی ہوگی۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ اسرائیل کی پالیسی خطرناک رخ اختیار کر چکی ہے اور وہ مسلسل مسلم ممالک کو نشانہ بنا رہا ہے۔ لبنان، شام، ایران کے بعد قطر پر حملہ ناقابلِ برداشت ہے۔ ان کے مطابق قطر اس وقت امریکی اور مصری ثالثی کے ساتھ امن مذاکرات میں مصروف تھا اور حملے کا مقصد اس عمل کو سبوتاژ کرنا تھا۔
57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے اجلاس پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب محض قراردادیں کافی نہیں، بلکہ عملی حکمتِ عملی بنانا ہوگی تاکہ اگر اسرائیل اپنی جارحیت جاری رکھے تو اجتماعی اقدامات کیے جا سکیں۔
اسحاق ڈار نے بتایا کہ پاکستان نے فوری طور پر صومالیہ اور الجزائر کے ساتھ مل کر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست دی ہے اور جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کو بھی فعال کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ترجیح ہمیشہ بات چیت اور سفارتکاری رہی ہے، لیکن اگر جارحیت ختم نہ ہو تو اقتصادی پابندیاں، قانونی چارہ جوئی اور علاقائی سلامتی فورس جیسے اقدامات بھی زیر غور آ سکتے ہیں۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں سوال پر اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان نے کبھی اپنی جوہری صلاحیت استعمال نہیں کی اور نہ ایسا ارادہ ہے، لیکن اگر قومی سلامتی کو خطرہ ہوا تو دفاع ہر قیمت پر کیا جائے گا۔
انہوں نے اسرائیل کے قطر پر حملے کو امریکا کے اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن سے تشبیہ دینے کے دعوے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کی توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش ہے۔ پاکستان خود دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار رہا ہے اور اس جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔
بھارت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ کشمیر ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازع ہے، جس پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔ آرٹیکل 370 کا خاتمہ اور جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنا عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈس واٹر ٹریٹی سے یکطرفہ انخلا کا بھارت کو کوئی اختیار نہیں، اور اگر بھارت نے پانی کو ہتھیار بنایا تو یہ جنگ کے مترادف ہوگا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مئی میں پاک بھارت جھڑپوں میں پاکستان نے دفاعی برتری ثابت کی اور بھارت کے خطے میں سلامتی کے دعوے کو چیلنج کیا۔
افغانستان سے تعلقات کے بارے میں اسحاق ڈار نے کہا کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئی ہے اور تجارت، معاہدوں اور ریلوے منصوبوں پر پیش رفت جاری ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ جیسے دہشت گرد عناصر کی موجودگی قابل قبول نہیں اور مطالبہ کیا کہ انہیں پاکستان کے حوالے کیا جائے یا افغانستان سے نکالا جائے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین اور کشمیر جیسے تنازعات پر عالمی قراردادوں پر عمل درآمد نہ ہونا اقوام متحدہ کی ساکھ کو متاثر کر رہا ہے، اس لیے سلامتی کونسل میں اصلاحات اور ان ممالک کے خلاف کارروائی ضروری ہے جو عالمی فیصلوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔
انٹرویو کے اختتام پر اسحاق ڈار نے فوری جنگ بندی اور غزہ میں انسانی امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی پر زور دیا اور کہا کہ ہر لمحہ قیمتی ہے اور ہر جان بچانا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔