اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) موجودہ دور میں جب فحاشی و عریانی نے معاشروں اور تہذیبوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے،
آج باطل قوتیں تفریح پر قبضہ کر رہی ہیں، اس ثقافتی یلغار کا سب سے بڑا ہدف نوجوان نسل ہے۔
باطل جہاں پہنچ جاتا ہے وہاں جائیداد اور مواصلات پر قبضہ کر لیتا ہے اور پھر مزاحمت سے بچنے کے لیے
اہسے لوگوں میں مقبول کیا جاتا ہے۔
جنگوں کے دور میں جہاں جنگ نہیں لڑی جا سکتی، مغرب نے ثقافتی یلغار
کے ذریعے قوموں کو شکست دینے کو اپنا ہدف بنا لیا ہے
اس مقصد کی کامیابی کے لیے اس نے ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کو بہترین طریقے سے استعمال کیا ہے
اس طرح۔ ہمارے پاکستانی ڈرامے۔ وہ وہ کردار ادا نہیں کر رہے جو انہیں کرنا چاہیے۔
ڈرامہ نگار خلیل الرحمان کے مطابق پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری طویل عرصے سے تباہی کے دہانے پر ہے
’’میری قوم اپنے ڈراموں سے سیکھتی ہے‘‘۔
کسی زمانے میں انور مقصود، فاطمہ ثریا بچیا، بانو قدسیہ، اشفاق احمد جیسے ڈرامہ نگاروں کے ڈرامے
قوم کی تعلیم میں واضح کردار ادا کرتے تھے جو پی ٹی وی پر نشر ہوتے تھے
اس کے برعکس نجی چینلز ایک ایجنڈے کے تحت سماجی مسائل کو ضرورت سے زیادہ اجاگر کیا
موجودہ دور میں پیش کیے جانے والے زیادہ تر ڈرامے برائی پر ہوتے ہیں۔
ڈراموں میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں صرف جرائم ہی پنپتے ہیں
اور یہ روایات اور اقدار سے عاری معاشرہ ہے۔
انور مقصود کے مطابق جمعرات کی رات 8:30 بجے میرے پاس تم ہو ،، جمعرات کی رات گیارہ بجے مجھے بیٹا چاہیے
جمعرات کی رات بارہ بجے ناممکن، جمعرات رات ساڑھے بارہ بجے کو ‘چیخ … اب میں ایسے پروگراموں کے ناموں کے بعد ڈرامہ کیسے لکھوں؟”
بقول شاہنواز فاروقی "آج ہماری تفریح مغرب کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ آج ڈراموں میں وہی دکھایا جاتا ہے
جو( مغرب) کا منظور نظر ہو
ایسی صورتحال میں حال ہی میں پیش کیا جانے ولا ترک ڈرامہ "Deriles Ertugrul” امید کی کرن بن کر ابھرا ہے۔
اس ڈرامے نے امت مسلمہ میں ہلچل مچا دی ہے۔ اگر خلیج کی بات کریں تو قطر، کویت میں اس کی بھرپور پذیرائی ہوئی
جب کہ متحدہ عرب امارات،سعودی عرب اور مصر نے کھل کر اس کی مخالفت کی ہے ۔
نیویارک ٹائمز نے اسے ترکی کا "نرم ایٹم بم” قرار دیا۔
اردگان نے جواب میں کہا کہ جب تک شیر اپنی تاریخ خود نہیں لکھیں گے، شکاری ہیرو رہیں گے۔
"Deriles Ertugrul” میں مذہبی اقدار، رسومات اور مذہب کے بنیادی تصورات کو اجاگر کیا گیا ہے۔
اس ڈرامے میں انسان کے پیدائش سے لے کر قبر تک کے سفر کو مذہبی حوالے سے عوام کے سامنے لایا گیا ہے۔
ڈرامے میں صحیح اور غلط کے بنیادی فرق کو بھی
پوری طرح واضح کیا گیا ہے۔ خلافت عثمانیہ ترک اور مسلم تاریخ کا ایک روشن باب ہے
اور اس تاریخ سے وہ اپنی نسل کو روشن کر رہے ہیں
اس کے برعکس پاکستانی شائقین کو صرف ’’ساس بہو کے جھگڑے، جعلی محبتوں کے فلسفے
سماجی برائیاں‘‘ دیکھنے کو ملتی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مغرب کی تہذیبی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے
میڈیا پر پاکستانی ڈراموں میں امت مسلمہ کے ہیروز کو دکھایا جائے
اور مغرب کے بجائے امت مسلمہ کی تاریخ اور دینی کردار کو اجاگر کیا جائے