رپورٹ کے مطابق پولیس سب سے کرپٹ ہے، اس کے بعد پروکیورمنٹ اور ٹھیکیداری کا شعبہ اور پھر عدلیہ ہے۔
تعلیم اور صحت کے شعبے بالترتیب کرپٹ ترین شعبوں میں چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہیں۔ مقامی حکومتیں، لینڈ ایڈمنسٹریشن اور کسٹم، ایکسائز اور انکم ٹیکس بالترتیب کرپٹ ترین اداروں میں چھٹے، ساتویں اور آٹھویں نمبر پر ہیں۔ پبلک سروس ڈیلیوری کی شرائط کے مطابق عدلیہ میں رشوت کی اوسط قیمت 25 ہزار 846 روپے ہے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ اوسط رشوت خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ ہے اور یہ 162,000 روپے تک ہے۔ پنجاب میں اوسط شہری نے سب سے زیادہ 21 ہزار 186 روپے رشوت دی اور وہ بھی پولیس کو جب کہ بلوچستان میں صحت کی سہولیات کے لیے سب سے زیادہ اوسط رشوت 1 لاکھ 60 ہزار روپے رہی۔
این سی پی ایس 2023 کے مطابق 68 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ جیسے اداروں کو سیاسی شکار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 60 فیصد پاکستانی قومی سطح پر محسوس کرتے ہیں کہ نیب، ایف آئی اے، اے سی ای اور محتسب جیسے احتسابی اداروں کو ختم کر دینا چاہیے کیونکہ وہ بدعنوانی کے خاتمے میں ناکام رہے ہیں۔
قومی سطح پر 75 فیصد شہریوں کا خیال ہے کہ نجی شعبے میں بہت زیادہ طاقت اور اثر و رسوخ ہے، جو بدعنوانی کا باعث بنتا ہے۔ 36 فیصد شہریوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ انسداد بدعنوانی ایجنسیوں کا کردار ‘غیر موثر ‘ رہا ہے۔
قومی سطح پر کرپشن کے بڑے کیسز میں میرٹ کی 40 فیصد کمی ہے۔ صوبائی سطح پر سندھ میں 42 فیصد، خیبرپختونخوا میں 43 فیصد، بلوچستان میں 47 فیصد کا خیال ہے کہ ملازمتیں میرٹ کی بنیاد پر نہیں ملتی ہیں۔
پنجاب میں 47 فیصد کا خیال ہے کہ بیوروکریسی ریاستی اداروں کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتی ہے اور یہی پاکستان میں کرپشن کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
بدعنوانی کو کچلنے کے اقدامات کے طور پر 55 فیصد پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ قومی سطح پر حکومت کو فوری طور پر سرکاری اہلکاروں کے اثاثوں کو اپنی ویب سائٹس پر ظاہر کرنے کو یقینی بنانا چاہیےاور 45 فیصد کا خیال ہے کہ احتساب عدالتوں کو بدعنوانی کے مقدمات کو 30 دنوں میں نمٹایا جانا چاہیے۔
قومی سطح پر 47 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ پاکستان کی ترقی کو روکنے کی بڑی وجہ کرپشن ہے۔ 62 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ بدعنوانی اور غیر اخلاقی طرز عمل ماحولیاتی تباہی کا سبب ہیں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات میں اضافہ کرتے ہیں۔یہ سروے تنظیم نے اپنی پارٹنر تنظیموں کے تعاون سے چورو ں صوبوں میں 13 اکتوبر 2023 سے 31 اکتوبر 2023 تک کیا تھا اور ان میں سے ہر ایک صوبے میں 400 افراد سے جوابات حاصل کیے گئے تھے۔