رپورٹ کے مطابق متعلقہ حکام سرحدی شہر میں ‘پاسپورٹ ریڈر کی تنصیب کے لیے وفاقی حکومت سے بھی رجوع کریں گے۔
ان امور پر نگران وزیر اعلیٰ علی مردان ڈومکی کی زیر صدارت چمن میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں تبادلہ خیال کیا گیا جس میں آئی جی ایف سی میجر جنرل عامر اجمل، چیف سیکرٹری شکیل قادر خان، بلوچستان پولیس کے سربراہ عبدالخالق شیخ اور دیگر نے شرکت کی۔ .
اجلاس کو بتایا گیا کہ سرحدی شہر میں ‘موثر طریقہ کارکے تحت گزشتہ چند دنوں میں 150 افغان خاندانوں کو ڈی پورٹ کیا گیا۔
وطن واپسی کے عمل کی نگرانی کے لیے پولیس، لیویز اور ضلعی انتظامیہ کے نمائندوں پر مشتمل مانیٹرنگ کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ کم از کم تین کیمپ بنائے جا رہے ہیں جہاں یکم نومبر کی ڈیڈ لائن کے بعد غیر قانونی تارکین وطن کو ان کے آبائی ممالک واپس بھیجنے سے پہلے رکھا جائے گا۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ کیمپوں میں تمام مطلوبہ سہولیات پہلے ہی فراہم کر دی گئی ہیں اور مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر چمن میں مزید کیمپ لگائے جائیں گے۔
قبائلی جرگہ
نگران وزیراعلیٰ بلوچستان میر علی مردان ڈومکی نے جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کا فیصلہ حتمی ہے اور اس کا اطلاق تمام غیر قانونی تارکین پر ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ چمن پاسپورٹ آفس میں اضافی عملہ تعینات کر دیا گیا ہے، دفتر 24 گھنٹے کھلا رہے گا، انہوں نے مزید کہا کہ جلد ہی قلعہ عبداللہ میں پاسپورٹ آفس بھی کام کرنا شروع کر دے گا۔
انہوں نے کہا کہ روایتی افغان شناختی دستاویزات (ای تذکرہ) کی رجسٹریشن دو دن میں مکمل ہو جائے گی، انہوں نے مزید کہا کہ بدانتظامی کے کسی بھی معاملے کی تحقیقات کے لیے چمن میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں ایک فوکل پوائنٹ قائم کیا گیا ہے۔
میر علی مردان ڈومکی نے کہا کہ حکومت سرحد پر رہنے والے خاندانوں کو درپیش مشکلات سے بخوبی آگاہ ہے، جنہیں عارضی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تاہم مسائل کے حل کے لیے جامع ایکشن پلان تیار کیا جا رہا ہے۔
مزید برآں انہوں نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت آنے والی مصنوعات پر پابندی سے متعلق قابل عمل اقدامات کی تجویز بھی دی۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی نے نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کے حوالے سے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین سے صرف غیر قانونی تارکین وطن کو نکالنا چاہتا ہے اور قانونی تقاضوں کو پورا کیے بغیر مزید سرحدی گزرگاہوں کو برداشت کرنا چاہتا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان نے پچھلی چار دہائیوں میں کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ پناہ گزینوں کی میزبانی کی ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ ایسے ممالک نرم سرحدوں کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتے جو غیر قانونی باشندوں کو آزادی سے رہنے اور جعلی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنانے کی اجازت دیتے ہیں۔
87