اٹارنی جنرل رستم کے پاس آئے اور اپنے دلائل میں کہا کہ تحریری جواب کی بنیاد پر دلائل دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ساری باتیں دہرائیں گے، ہائی لائٹ نہیں کریں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تین سوال اٹھائے گئے جن کا جواب دوں گا، آرٹیکل 191 اور عدلیہ کی آزادی پر بات کروں گا، آئین میں کئی جگہوں پر قانون کے تابع کی اصطلاح آئی ہے اور رازداری کے حق کو بھی موضوع رکھا گیا ہے۔ یہ کس قسم کا قانون ہو گا یہ نہیں بتایا گیا۔
انہوں نے دلائل میں کہا کہ سب سے پہلے ماسٹر آف روسٹر کے نکتہ پر دلائل دوں گا، عدالت میں 1956 کے رولز پر بھی دلائل دوں گا، اختیارات کی تقسیم اور ماسٹر آف روسٹر کے اختیارات لینے پر بھی دلائل دوں گا اپیل کے حق سے محروم کرنے کے حوالے سے بھی دلائل دوں گا اور جو کہا گیا ہے اسے نہیں دہراؤں گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 14، 20، 22، 28 میں دیئے گئے حقوق قانون کے تابع ہیں، پرائیویسی کا حق قانون کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے، آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے اور آئین کا کوئی آرٹیکل قانون سازی کا اختیار نہیں چھینتا آئین کے بعد سے آرٹیکل 191 میں ترمیم نہیں کی گئی اور اس کی عدم ترمیم عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل 191 میں قانون کا لفظ باقی آئینی شقوں میں اس لفظ کے استعمال سے مختلف ہے؟
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ غداری ایکٹ اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں قانون سازی کا اختیار آئینی دفعات سے لیا گیا، ان قوانین میں پارلیمنٹ نے وفاقی قانون ساز فہرست پر انحصار نہیں کیا، آرٹیکل 191 نے قانون سازی کا حق ختم نہیں کیا۔ پارلیمنٹ قانون سازی کرے۔ تاہم پارلیمنٹ نے عدلیہ کو آزادی تو دی ہے لیکن اس کے قانون سازی کے حق کو سلب نہیں کیا ہے
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ 1973 سے پہلے رولز بنانے کا اختیار گورنر جنرل یا صدر کی پیشگی اجازت سے مشروط تھا، آرٹیکل 8 کہتا ہے کہ کوئی ایسی قانون سازی نہیں کی جا سکتی جس سے بنیادی حقوق سلب ہوں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 191 قانون بنانے کا اختیار دیتا ہے لیکن عدلیہ کی آزادی کے خلاف قانون سازی نہیں کر سکتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اصل سوال عدلیہ کی آزادی کا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون کا ایک حصہ ایکٹ آف پارلیمنٹ اور دوسرا عدالتی فیصلہ ہے۔ عمل اور طریقہ کار عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں ہے۔