اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) آزاد کشمیر کی سیاست ایک نئے موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ پیپلز پارٹی نے حکومت سازی کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
جب کہ مسلم لیگ (ن) نے واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی مخلوط حکومت کا حصہ نہیں بنے گی۔ صدر آصف علی زرداری کا وزیرِاعظم شہباز شریف سے رابطہ اور اس کے بعد ن لیگ کی مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل اس بات کا عندیہ ہے کہ وفاقی سطح پر دونوں جماعتیں آزاد کشمیر کے سیاسی مستقبل کو نئی سمت دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے لیے یہ موقع اہم ہے کہ وہ آزاد کشمیر میں اپنی سیاسی بنیاد دوبارہ مضبوط کرے۔ صدر زرداری کے براہِ راست کردار نے واضح کر دیا ہے کہ پیپلز پارٹی صرف تماشائی نہیں بلکہ اقتدار کی دوڑ میں ایک متحرک فریق ہے۔ دوسری طرف، مسلم لیگ (ن) کے رہنما راجہ فاروق حیدر کا یہ مؤقف کہ “ہم اپوزیشن میں بیٹھنے کے فیصلے پر قائم ہیں” اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ن لیگ اپنی سیاسی پوزیشن کو اصولی بنیادوں پر برقرار رکھنا چاہتی ہے — اگرچہ یہ فیصلہ اسے اقتدار سے دور رکھ سکتا ہے۔
قمر زمان کائرہ کا بیان کہ "اگر ہمارے نمبر پورے ہوئے تو ہم حکومت بنائیں گے” آزاد کشمیر کی سیاسی حقیقت کو واضح کرتا ہے — یہاں اصولوں سے زیادہ اعداد و شمار (نمبر گیم) فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔پیپلز پارٹی کی یہ سیاسی مہم اس بات کا امتحان ہے کہ آیا وہ عوامی فلاح، گورننس اور استحکام کے ایجنڈے پر عمل کرے گی یا محض اقتدار کے حصول تک محدود رہے گی۔ اگر یہ کوششیں باہمی مفاہمت اور شفاف جمہوری طرزِ عمل کے ساتھ آگے بڑھیں تو آزاد کشمیر میں ایک مضبوط اور فعال حکومت بننے کے امکانات روشن ہیں۔