رپورٹ کے مطابق باخبر حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران ڈیزل اور پیٹرول کی عالمی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے تاہم اسی عرصے کے دوران ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے صارفین عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے کم فائدہ حاصل کر سکیں گے۔
حکام نے بتایا کہ ہفتے کے دوران ڈیزل کی قیمت اوسطاً 9 ڈالر فی بیرل کم ہو کر تقریباً 113 ڈالر سے کم ہو کر 104 ڈالر فی بیرل ہو گئی، جب کہ پیٹرول کی قیمت 91 ڈالر سے کم ہو کر 90 ڈالر پر آ گئی۔ اس کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں 6 روپے کا اضافہ ہوا جو 280 روپے سے بڑھ کر 286 روپے ہو گیا۔
حکومت پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی (PDL) 60 روپے فی لیٹر کی وصولی کی قانونی حد تک پہنچ گئی ہے، جو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) سے کیے گئے وعدوں کے مطابق حکومت کا بجٹ ہدف ہے۔ رواں مالی سال میں پیٹرولیم مصنوعات پر پی ڈی ایل کے طور پر 869 ارب روپے وصول کیے جانے ہیں۔
30 ستمبر 2023 کو ختم ہونے والی پہلی سہ ماہی میں پیٹرولیم لیوی کی مجموعی وصولی پہلے ہی 222 ارب روپے سے تجاوز کر چکی تھی، لیکن پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران یہ تقریباً 50 روپے فی لیٹر تھا ۔
پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتیں مہنگائی میں اضافے کی بڑی وجہ ہیں، حکومت کی جانب سے یکم نومبر سے گیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے سے مہنگائی کی شرح میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
پیٹرول عام طور پر پرائیویٹ ٹرانسپورٹ، چھوٹی گاڑیوں، رکشوں اور موٹر سائیکلوں میں استعمال ہوتا ہے، اس کی قیمتیں متوسط طبقے اور نچلے متوسط طبقے کے بجٹ کو براہ راست متاثر کرتی ہیں۔
اس کے برعکس ڈیزل کا استعمال بڑی ٹرانسپورٹ گاڑیوں، ٹرینوں اور زرعی انجنوں جیسے ٹرک، بسوں، ٹریکٹروں، ٹیوب ویلوں اور تھریشر میں ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کی قیمت مہنگائی کی ایک بڑی وجہ سمجھی جاتی ہے۔ اس کی قیمتوں کا سبزیوں اور دیگر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں پر خاصا اثر پڑتا ہے۔
حکومت نے 31 اکتوبر کو پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا
پٹرول اور ڈیزل حکومت کی آمدنی کا اہم ذریعہ ہیں جس کی ماہانہ 7 لاکھ سے 8 لاکھ ٹن فروخت ہوتی ہے، اس کے برعکس مٹی کے تیل کی ماہانہ طلب جو صرف 10 ہزار ٹن ہے۔
واضح رہے کہ پیٹرول کی موجودہ قیمت 283 روپے 38 پیسے فی لیٹر اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 303 روپے 18 پیسے فی لیٹر ہے۔