اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان اتفاق رائے سے کیا گیا ہے، حتمی فیصلہ ایک دوسرے سے تعاون کرکے کیا گیا ہے، الیکشن کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن نے کیا تھا۔ ، الیکشن کمیشن کو اپنا اختیار استعمال کرنا چاہیے۔ اگر کمیشن سربراہ مملکت یا حکومت کے سربراہ سے مشورہ کرنا چاہتا ہے تو اسے ایسا کرنا ہوگا اور یہی الیکشن کمیشن نے کیا ہے۔
نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی جلسے کرنے کی اجازت ہے، جلسوں اور ریلیوں کے لیے متعلقہ ضلعی انتظامیہ سے اجازت لی جاتی ہے، جماعتیں کبھی کبھی ووٹرز کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتی ہیں، کسی سیاسی جماعت پر کوئی پابندی نہیں
نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ لیول پلیئنگ فیلڈ کیا ہے جسے نگران حکومت نے یقینی بنانا ہے، مقامی اور بین الاقوامی مبصرین الیکشن کی نگرانی کریں گے، یہ مبصرین اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوئے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہنگامہ آرائی یا کوئی اور الزام ہے تو اسے ہٹانے کا طریقہ سسٹم میں موجود ہے، میرے نوٹیفکیشن سے یہ پابندی ختم نہیں ہوگی۔ ہاں اگر متعلقہ حکام پابندی برقرار رکھتے ہیں تو اسے ماننا پڑے گا۔ عدالتی نظام کے معاملے پر ہم سے سوالات کیے جاتے ہیں۔ جب ایسے قیاس آرائی پر مبنی سوالات پوچھے جاتے ہیں تو مجھے حیرت ہوتی ہے
اپنے انٹرویو کے دوران گفتگو کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ نگراں حکومت نہیں ہونی چاہیے، ہم جو بھی کریں، کہا جاتا ہے کہ آنے والی حکومت کا انتظار کریں، اگر ایسا ہے تو ملک میں موجودہ حکومت رکھی جائے، نگران حکومت نہیں ہونی چاہیے۔
ملکی معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ملکی معیشت میں بہتری آئی ہے، سٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، روپے کی قدر میں بہتری آئی ہے جس کے گردشی قرضوں پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری پر کام ہو رہا ہے، پاکستان اسٹیل کی نجکاری سے متعلق دو تین ماڈلز پر بات چیت جاری ہے۔ منتخب حکومت کے لیے مشکل فیصلے کرنا مشکل ہے لیکن نگراں حکومت کے لیے مشکل نہیں۔
انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ غیر ملکی قرضوں میں 4 ہزار ارب روپے کا فرق ہے، اس سے مہنگائی کم ہوئی، اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی ہوئی