اردوورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی انتہا پسندی اور تشدد کو فروغ دینے کے لیے پی ٹی آئی پر پابندی کے کسی اقدام کی مزاحمت نہیں کرے گی۔
اس سے قبل پیپلز پارٹی کے رہنما نے اس وقت اختلاف کا اظہار کیا جب مسلم لیگ (ن) کے کچھ رہنماؤں نے پی ٹی آئی پر بطور سیاسی جماعت پابندی عائد کرنے کی تجویز دی۔
ان خیالات کا اظہار بلاول بھٹو زرداری نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، جس کا اظہار انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران کیا۔
تحریک انصاف پر پابندی لگانےکا سوچ رہے ہیں ،خواجہ آصف
انہوں نے کہا کہ میں نے وفاقی کابینہ میں پی ٹی آئی پر پابندی کے اقدام کی مخالفت کی تھی لیکن اب ہم کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ وہ (پی ٹی آئی) ریڈ لائن کراس کر چکے ہیں۔
انہوں نے پوچھا کہ اگر کوئی سیاسی جماعت عسکریت پسند تنظیم میں تبدیل ہونا چاہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔
9 مئی کو ہنگاموں اور تشدد میں ملوث پی ٹی آئی کے حامیوں کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ ان کی پارٹی قانون اور آئین کے تحت کسی بھی چیز کی حمایت کرے گی۔
اگرچہ انہوں نے آرمی ایکٹ 1952 کے تحت مقدمے کی توثیق کی، پی پی پی رہنما نے نئی فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آئینی ترمیم کے امکان کو مسترد کردیا۔
توڑ پھوڑ انفرادی فعل ہے،کسی جماعت پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی،بیرسٹر علی ظفر
ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالتیں آرمی ایکٹ کے تحت بن سکتی ہیں اور اس کے لیے کسی آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے جہاں اپنی پوزیشن واضح کر دی ہے وہیں فوجی عدالتوں کے قیام اور پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے دونوں معاملے پر پیپلز پارٹی کے اندر رائے منقسم ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے 19 مئی کو پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کے اجلاس کے بعد پہلی بار وزیر اعظم سے ملاقات کی۔
پی ٹی آئی پر پابندی کے حق میں نہیں، نیب کا ادارہ بند کرنا پڑ ے گا،بلاول بھٹو
فرحت اللہ بابر کے مطابق سی ای سی کے اجلاس میں پی پی پی کے کچھ رہنماؤں کی رائے تھی کہ پی ٹی آئی پر مکمل پابندی لگنی چاہیے جب کہ دیگر کا کہنا تھا کہ اس سے تمام سیاسی قوتوں کو یکساں میدان نہیں ملے گا۔ .
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے کچھ رہنما بھی پریشان ہیں کہ پی ٹی آئی کے رہنما ان کی پارٹی کیسے چھوڑ رہے ہیں اور کہا کہ ماضی میں دیگر جماعتیں بھی ایسی صورتحال کا شکار رہی ہیں۔