اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں اٹارنی جنرل کو کل تک پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 8 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بینچ کا حصہ ہیں۔
وفاقی حکومت نے کیس فل کورٹ میں چلانے کے لیے باضابطہ درخواست دائر کر دی ہے۔ درخواست میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے تمام ججز پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے تمام فریقین کو تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی، عدالت نے اٹارنی جنرل سے پارلیمنٹ اور قائمہ کمیٹیوں کی کارروائی کا ریکارڈ بھی طلب کیا تھا۔آج سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی۔وکیل مسلم لیگ ن صلاح الدین احمد نے کہا کہ ہم نے درخواست میں فل کورٹ کی بھی درخواست کی ہے۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ آپ کی درخواست کو ابھی نمبر الاٹ نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیں
حکومت کا سپریم کورٹ بل کی پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ جاری نہ کرنے کا فیصلہ
فواد چوہدری نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو نوٹس ہے ، اس لیے پی ٹی آئی کی جانب سے حاضر ہوں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا آپ نے دستاویزات جمع کرادی ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ توقع ہے کہ کل تک پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ مل جائے گا، سپیکر آفس سے باضابطہ اور غیر رسمی رابطہ ہوا ہے، عدالت نے قرار دیا ہے کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے، ۔ عدلیہ آئین کی بنیاد ہے۔ اس کے علاوہ جوڈیشل ریفارمز ایکٹ میں بینچ کی تشکیل اور اپیلوں کے معاملے کا تعین کیا گیا ہے، جوڈیشل ریفارمز بل میں وکلاء کو تبدیل کرنے کا حق بھی دیا گیا ہے، قانون میں درج معاملات انتظامی نوعیت کے ہیں۔
فل کورٹ کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز فل کورٹ نے بنائے، سپریم کورٹ کے پریکٹس رولز میں فل کورٹ بھی ترمیم کر سکتی ہے، عدلیہ کی آزادی سے متعلق کیس اور رولز فل کورٹ بھی کر سکتے ہیں۔ سننا چاہیے، قانون کا اطلاق براہ راست ان ججوں پر بھی ہو گا جو کیس کی سماعت نہیں کر رہے ہیں۔
جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ قانون سازی کے اتنے اختیارات ہیں یا نہیں، یہ ترمیم کا سوال نہیں ہے۔ جسٹس مظہر نقوی نے کہا کہ کیا ماضی میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ جیسی کوئی قانون سازی ہوئی ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1973 تک رولز بنانے کے لیے صدر کی اجازت درکار تھی۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 191 کی موجودگی میں ایسی قانون سازی کیسے ہو سکتی ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ نے اپنی درخواست میں کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے اس لیے فل کورٹ اسے سنے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ہم ہمیشہ کی طرح پہلی قسم کے کیسز سنتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسا کیس ماضی میں کبھی نہیں آیا لہٰذا فل کورٹ تشکیل دی جائے۔؎
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ کا کوئی بھی بنچ کسی بھی کیس کی سماعت کرسکتا ہے، کیا حکومت اس کیس میں فل کورٹ کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے؟ کیا حکومت چاہتی ہے کہ عدالت کی اندرونی بحث باہر آئے؟ ہر کیس اہم ہے، یہ کیسے طے ہوگا کہ فل کورٹ کس کیس کی سماعت کرے گی؟ کیا عدالتی آزادی کے ہر کیس کو فل کورٹ نے سنا؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ افتخار چوہدری کے کیس سمیت متعدد کیسز فل کورٹ نے سنے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 1996 سے عدلیہ کی آزادی کے کیسز زیر سماعت ہیں، بظاہر فل کورٹ بنانا حکومت کا معاملہ نہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ عوام کا فل کورٹ پر اعتماد ہے؟ درخواست گزار کی درخواست پر عدالت کو اپنی کارروائی کو کیسے منظم کرنا چاہیے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ درست ہے کہ عدالتی آزادی کے تمام مقدمات کی سماعت فل کورٹ نے نہیں کی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فل کورٹ کو انتظامی معاملات میں رولز بنانے کا اختیار ہے، رولز کی تشریح کا کیس 3 رکنی بنچ کے سامنے آئے تو کیا فل کورٹ اسے سنے۔ فل کورٹ نے اپنا اصول بنایا ہے۔