اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) آسٹریلیا کی ایک یونیورسٹی نے انسانی اور چوہے کے خلیات کو الیکٹرانک چپ پر رکھ کر مزید طاقتور بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسے فوجی تحقیقی اداروں سے فنڈنگ ملی ہے۔
اس منصوبے کو ‘ڈش برین کا نام دیا گیا ہے، یہ انسانی دماغ کے خلیات اور برقی سرکٹس کو یکجا کرتا ہے اور پھر مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے اسے نقل کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں
2035 تک چاند پر فٹ بال میچز کا انعقاد ممکن ہوگا ؟
موناش یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ڈش دماغ کو ایک نیم حیاتیاتی کمپیوٹر چپ میں تبدیل کر دیا ہے جس میں تقریباً 800,000 انسانی اور چوہے کے دماغی خلیات کو الیکٹروڈز پر زندہ رکھا جاتا ہے۔ اس سے قبل یہ چپ صرف پانچ منٹ میں ‘پنگ پونگ نامی کمپیوٹر گیم کھیلنا سیکھ چکی ہے۔ڈش دماغ ایک طرف اعصابی خلیوں کو پڑھ سکتا ہے اور دوسری طرف برقی سگنلز کو ان سے جوڑ سکتا ہے۔ اس سے ایک ایسا کھیل شروع ہوا جس میں پہلی بار انسانی خلیات اور کمپیوٹر چپ نے مشترکہ کردار ادا کیا ہے۔
مزید پڑھیں
مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کا بے دریغ پھیلائو،عالمی طاقتیں پریشان
واضح رہے کہ زندہ خلیوں کو لیبارٹری پیٹری ڈش میں کلچر کیا گیا تھا۔اس طرح پہلی بار انسانی دماغ کے خلیوں کو اس قابل بنایا گیا کہ وہ نہ صرف بیرونی دنیا کو محسوس کر سکیں بلکہ عمل بھی کر سکیں۔ اس کامیابی کے بعد انہیں آسٹریلوی ملٹری ایجنسی کے تحت انٹیلی جنس اور سیکیورٹی کے شعبے میں 400,000 ڈالر کی ریسرچ گرانٹ دی گئی ہے۔پروگرام کے سربراہ عدیل رضوی نے کہا کہ زندہ خلیات والی چپ کو آٹومیشن، پلاننگ، روبوٹکس، فارماسیوٹیکل اور دماغی کمپیوٹر انٹرفیس جیسے اہم شعبوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔