اردو ورلد کینیڈا ( ویب نیوز ) دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت (AI) کے فروغ کے ساتھ ساتھ ڈیٹا سینٹرز کے قیام میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے
لیکن ان سینٹرز کے پانی کے بے تحاشا استعمال نے ماحولیاتی ماہرین اور شہریوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ کینیڈا کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں ٹیکنالوجی کی سرمایہ کاری کے لیے ڈیٹا سینٹرز کو خوش آمدید کہہ رہی ہیں۔ ملک بھر میں کم از کم آٹھ بڑے ہائپر اسکیل ڈیٹا سینٹر منصوبے جاری ہیں، یہ مراکز نہ صرف بجلی بلکہ اربوں لیٹر پانی کے بھی بڑے صارف بن سکتے ہیں، جو بالخصوص خشک سالی کے شکار علاقوں میں خطرے کی گھنٹی ہے۔
برٹش کولمبیا کے شہر نینائمو میں ایک ریٹائرڈ پروفیسر کیتھرین بارنویل ان چند شہریوں میں شامل ہیں جو اپنے علاقے میں مجوزہ ڈیٹا سینٹر کی تعمیر کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق زندگی پانی سے چلتی ہے، ڈیٹا سے نہیں، ہمیں پانی کی ضرورت ہے، ڈیٹا کی نہیں۔ بارنویل کہتی ہیں کہ دو لاکھ اسکوائر فٹ کے اس ڈیٹا سینٹر کو روزانہ ستر ہزار لیٹر پینے کا پانی صرف ٹھنڈک کے نظام کے لیے درکار ہوگا، جو ایک ایسے خطے کے لیے خطرناک ہے جہاں پہلے ہی خشک سالی بڑھ رہی ہے۔
تحقیقات سے ظاہر ہوا ہے کہ مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹس مثلاً ChatGPT کے صرف 10 سے 50 درمیانے درجے کے جوابات پیدا کرنے میں تقریباً پانچ سو ملی لیٹر پانی خرچ ہوتا ہے، جس میں بجلی پیدا کرنے اور مشینوں کو ٹھنڈا کرنے دونوں کے مراحل شامل ہیں۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق 2023 میں دنیا بھر کے ڈیٹا سینٹرز نے ایک سو چالیس ارب لیٹر پانی صرف کولنگ کے لیے استعمال کیا۔
کینیڈا میں سب سے بڑی پیش رفت مائیکروسافٹ کی جانب سے ہے جو کم از کم ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے متعدد ڈیٹا سینٹرز تعمیر کر رہی ہے۔ ٹورنٹو کے مضافاتی علاقے ایٹو بیکوک میں بننے والا YTO 40 ڈیٹا سینٹر سالانہ تقریباً ایک اعشاریہ دو ارب لیٹر پانی استعمال کرنے کی اجازت کے ساتھ منظور کیا گیا ہے، جو پانچ سو اولمپک سائز سوئمنگ پولز کے برابر ہے۔ اسی طرح واؤگن میں موجود مائیکروسافٹ کے دوسرے ڈیٹا سینٹر سے سالانہ سات سو تیس ملین لیٹر پانی کے استعمال کی توقع ہے۔
البتہ مائیکروسافٹ کا مؤقف ہے کہ کینیڈا کے ٹھنڈے موسم اور نئی ٹیکنالوجی کی بدولت یہ مراکز زیادہ تر بیرونی ہوا اور بارش کے پانی سے ٹھنڈا کیے جائیں گے اور صرف شدید گرمی میں ہی میونسپل پانی استعمال کریں گے۔امریکا، یورپ اور لاطینی امریکا میں پانی کی کمی کے خدشے کے باعث کئی منصوبوں کو عوامی مزاحمت کا سامنا ہے۔ گزشتہ ماہ گوگل نے امریکی ریاست انڈیاناپولس میں ایک ارب ڈالر کے ڈیٹا سینٹر منصوبے کو مقامی احتجاج کے بعد منسوخ کر دیا۔ چلی اور نیدرلینڈز میں بھی مقامی کسانوں اور ماحولیاتی گروپوں کے دباؤ کے باعث کئی منصوبے یا تو معطل کر دیے گئے یا ان کی شرائط میں تبدیلی لانا پڑی۔
کینیڈا کی وفاقی حکومت نے سات سو ملین ڈالر کے فنڈز ڈیٹا سینٹر منصوبوں کے لیے مختص کیے ہیں، تاہم پانی کے استعمال پر کوئی جامع ریگولیشن موجود نہیں۔ اوٹاوا میں قائم پبلک انٹرسٹ ایڈووکیسی سینٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جیوف وائٹ کے مطابق، اگر ہم صرف معاشی فائدے سوچ کر آگے بڑھ رہے ہیں اور ماحولیاتی اثرات نظرانداز کر رہے ہیں تو یہ لاپرواہی ہے۔
گوگل نے امریکی ریاست اوریگون میں اپنے ڈیٹا سینٹر کے پانی کے اعدادوشمار چھپانے کے لیے مقامی اخبار کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا، بعد میں انکشاف ہوا کہ یہ ڈیٹا سینٹر شہر کے کل پانی کے ایک چوتھائی حصے کا اکیلا صارف تھا۔ کینیڈا میں بھی بعض ڈیٹا سینٹرز کے پاس واٹر میٹرز تک نصب نہیں، جس سے ان کے اصل پانی کے استعمال کا اندازہ ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر، کیوبک کے شہر وارنز میں قائم ایمیزون ویب سروسز کے ڈیٹا سینٹر کو ابھی تک پانی کے میٹر سے نہیں جوڑا گیا، اور وہ سالانہ صرف ایک سو ترپن ڈالر کے فلیٹ ریٹ پر پانی استعمال کر رہا ہے، حالانکہ ایمیزون نے گزشتہ سال ایک سو ارب امریکی ڈالر کی آمدنی حاصل کی۔
پانی کے ماہر نیتھن ونگوسی، جو پہلے ایمیزون کے ساتھ کام کرتے تھے، نے خبردار کیا ہے کہ شفافیت کے بغیر یہ صنعت اپنی سماجی قبولیت کھو سکتی ہے۔ ان کے مطابق عوام کو دھوکہ دینا نہ اچھا عمل ہے، نہ اچھا کاروبار، ہمیں پانی کے استعمال کی مکمل تفصیلات ظاہر کرنی چاہئیں۔
نینائمو میں ڈیٹا سینٹر منصوبہ اب بھی منظوری کے عمل سے گزر رہا ہے، لیکن مقامی آبادی کیتھرین بارنویل کی قیادت میں مسلسل مزاحمت کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں کہیں یہ ڈیٹا سینٹرز بنے ہیں، وہاں لوگ بعد میں پچھتائے ہیں، ہمیں موقع ہے کہ غلطی شروع ہونے سے پہلے ہی اسے روک دیں۔