اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) البرٹا ہیلتھ سروسز (AHS) کے ٹھیکوں سے متعلق سامنے آنے والی رپورٹ نے ایک بار پھر سرکاری اداروں میں شفافیت اور احتساب کے سوالات کو زندہ کر دیا ہے۔
سابق جج ریمنڈ وائنٹ کی زیرِ نگرانی تحقیقاتی رپورٹ میں اگرچہ کسی براہِ راست سیاسی کردار، بشمول وزیرِاعظم ڈینیئل اسمتھ، پر بدعنوانی یا اثراندازی کا ثبوت نہیں ملا، لیکن رپورٹ کا لبِ لباب یہ ہے کہ تنازعاتِ مفاد سب کو معلوم تھے، اور پھر بھی کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں عوامی اعتماد ڈگمگا جاتا ہے۔ اگر ادارے خود اندرونی طور پر اپنے نظام کی خامیوں سے آنکھ چرا لیں تو پھر بیرونی مداخلت کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ وائنٹ نے بجا طور پر اشارہ کیا کہ ان کے پاس مکمل اختیارات نہیں تھے، اس لیے وہ قطعی فیصلے نہیں دے سکتے تھے، مگر ان کے الفاظ میں چھپا پیغام واضح ہے کہ سب جانتے تھے، مگر کسی نے کچھ نہیں کیا۔ یہ جملہ صرف ایک انتظامی ناکامی نہیں بلکہ نظامی بے حسی کی علامت ہے۔
سرکاری اداروں میں ’’ہم سمجھتے تھے کہ کوئی اور دیکھ لے گا‘‘ جیسا رویہ ہی شفافیت کے دشمن پیدا کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جیتندرا پرساد اور بلین اِسکیو نامی دو اہلکاروں کے مفادات کا ٹکراؤ وسیع پیمانے پر معلوم تھا، مگر نہ صرف انہیں روکا نہیں گیا بلکہ اعلیٰ حکام نے بھی آنکھیں بند کرلیں۔ یہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ خطرے کی گھنٹی صرف بجی نہیں بلکہ دبی بھی گئی۔ اگر کارکنان یا افسران کو یقین ہو کہ بدعنوانی کی نشاندہی کرنے پر ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی، تب ہی وہ نظام کو درست کرنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ البرٹا حکومت کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ وزیرِاعظم اسمتھ نے بلاشبہ وائنٹ کی 18 سفارشات پر عملدرآمد کا عندیہ دیا ہے، لیکن اس عمل کی نیم دلی یا تاخیر سے سارا مقصد فوت ہو جائے گا۔ تنازعِ مفاد، ٹھیکہ جاتی شفافیت، اور وِسل بلوئر پروٹیکشن جیسے نظاموں کو مضبوط کیے بغیر اصلاحات کا نعرہ محض سیاسی دکھاوا بن سکتا ہے۔ یہ واقعہ یاد دلاتا ہے کہ بدعنوانی صرف مالی بے ضابطگی نہیں ہوتی بلکہ ذمہ داری سے فرار بھی ایک اخلاقی بدعنوانی ہے۔ اگر سب جانتے ہوئے بھی کوئی نہ کرے تو یہی خاموشی دراصل سب سے بڑا جرم بن جاتی ہے۔