12
اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) سعودی عرب، جو کبھی دنیا میں تیل کا سب سے بڑا دارالحکومت سمجھا جاتا تھا، اب اپنی توانائی کی پالیسی میں حیران کن تبدیلی لا کر شمسی توانائی کی سپر پاور بننے کی راہ پر گامزن ہے۔
ماضی میں فوسل فیول کا مترادف سمجھے جانے والا یہ ملک اب اپنے وسیع صحراؤں کو شمسی پینلز سے ڈھانپ رہا ہے۔ سعودی حکومت نے 2030 تک 130 گیگاواٹ قابلِ تجدید توانائی پیدا کرنے کا ہدف مقرر کر دیا ہے، جو کہ ایک انقلابی اور جرات مندانہ اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔
توانائی کا نیا نقشہ
2024 میں سعودی عرب کی شمسی پیداوار 4,340 میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے، جو 2023 کے مقابلے میں تقریباً دوگنی ہے۔ 2030 تک ملک کی 50 فیصد بجلی قابلِ تجدید ذرائع سے پیدا ہوگی۔ ACWA پاور اور آرامکو پاور کی 8.3 ارب ڈالر سرمایہ کاری سے 15 گیگاواٹ کے شمسی و ہوا منصوبے زیرِ تکمیل ہیں۔
شمسی توانائی کیوں؟
چین کی بدولت سولر پینلز اور بیٹری اسٹوریج کی قیمتوں میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ اس کے باعث سعودی عرب نے حالیہ نیلامیوں میں بجلی کی قیمت صرف 1.3 سینٹ فی کلو واٹ آور** رکھی، جو تیل سے پیدا ہونے والی بجلی سے کہیں سستی ہے۔ اس تبدیلی سے سعودی معیشت کو ہر سال 20 ارب ڈالر کی بچت ممکن ہوگی۔
چیلنجز اور امکانات
ریگستانی موسم، ریت کے طوفان اور شدید گرمی سولر پینلز کی کارکردگی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، لیکن جدید ٹیکنالوجی اور عالمی اداروں کے تعاون سے سعودی عرب ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہے۔