اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) کینیڈا کے صوبہ البرٹا میں ہزاروں طلبہ نے حکومت کے فیصلے کے خلاف صوبہ گیر واک آؤٹ احتجاجی مارچ میں حصہ لیا۔
کیلگری سمیت مختلف شہروں کے ہائی اسکولوں کے طلبہ نے اپنی کلاسوں سے باہر نکل کر اساتذہ سے یکجہتی کا اظہار کیا۔یہ احتجاج اساتذہ کی تین ہفتے طویل ہڑتال کے اختتام اور حکومتِ البرٹا کی جانب سے متنازعہ “Back to School Act (بل 2)” کے نفاذ کے بعد سامنے آیا، جس میں “notwithstanding clause” کا استعمال کرتے ہوئے ہڑتال کو ختم کرنے اور اساتذہ کو زبردستی واپس کلاسوں میں جانے پر مجبور کیا گیا۔
اس احتجاج کا اہتمام Alberta Students for Teachers نامی گروپ نے کیا، جس کے تحت کیلگری اور دیگر شہروں کے درجنوں اسکولوں میں طلبہ نے واک آؤٹ کیا۔بارہویں جماعت کی طالبہ آریا مشر جو ولیم ایبر ہارٹ ہائی اسکول سے تعلق رکھتی ہیں، نے کہا کہ یہ احتجاج طلبہ کے لیے اپنی آواز سنانے کا موقع ہے۔ “سیاستدان یہ کہتے ہیں کہ وہ طلبہ کی نمائندگی کر رہے ہیں، مگر حقیقت میں ہم میں سے اکثر ان کی باتوں سے اتفاق نہیں کرتے۔”
مشرا کے مطابق، طلبہ چاہتے ہیں کہ حکومت کلاس سائز پر حد مقرر کرے (Classroom Caps) اور جنوری 2026 کے ڈپلومہ امتحانات کو اختیاری قرار دے اس مطالبے کے حق میں ایک آن لائن پٹیشن پر اب تک 27 ہزار سے زائد دستخط ہو چکے ہیں۔
کیلگری کے مختلف اسکولوں کے طلبہ نے اسکولوں کے باہر احتجاجی مظاہرے کیے جبکہ ویسٹرن کینیڈا اور سینٹ میری ہائی اسکول کے طلبہ نے شہر کے وسطی علاقے سٹی ہال کے سامنے مظاہرہ کیا۔ایک اور طالبہ وائشنوی وینکٹیشوران نے کہا کہ “یہ قانون آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ہمیں اپنی آزادی کے لیے کھڑا ہونا ہوگا، ورنہ یہ ایک خطرناک مثال قائم کرے گا کہ نوجوان کسی بھی غیر منصفانہ فیصلے کو قبول کر لیں گے۔”انہوں نے کہا، “میں بارہویں جماعت کی طالبہ ہوں اور مستقبل میں ووٹر بننے جا رہی ہوں۔ میرے لیے ضروری ہے کہ میں وہی کروں جو درست سمجھتی ہوں۔ بہت سے طلبہ بھی یہی محسوس کرتے ہیں۔”
کیلگری کے علاوہ جنوبی البرٹا کے شہروں میں بھی طلبہ نے احتجاج میں حصہ لیا۔کینمور کے Canmore Collegiate High Schoolسے تقریباً 120 طلبہ نے کلاسوں سے واک آؤٹ کیا، جب کہ ethbridge Collegiate Institute میں پچاس کے قریب طلبہ نے احتجاج میں شرکت کی۔گیارہویں جماعت کی طالبہ میری ویب نے کہا کہ “یہ احتجاج ہمارے لیے موقع ہے کہ ہم دکھا سکیں کہ اساتذہ کے حقوق ہمارے لیے کتنے اہم ہیں۔ شاید وزیرِ اعلیٰ ڈینیئل اسمتھ پر اس کا فوری اثر نہ پڑے، مگر عوام تک ہمارا پیغام ضرور پہنچے گا۔”
البرٹا کے وزیرِ تعلیم ڈیمیٹریوس نیکولائیڈس نے ایک بیان میں کہا کہ “طلبہ کو پرامن احتجاج کا حق ضرور حاصل ہے، لیکن انہیں اپنی تعلیم متاثر نہیں کرنی چاہیے۔ کلاس سے غیر حاضر رہنا نہ صرف ان کے اپنے سیکھنے کے عمل میں خلل ڈالتا ہے بلکہ دوسروں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔کیلگری بورڈ آف ایجوکیشن (CBE) اور کیلگری کیتھولک اسکول ڈسٹرکٹ (CCSD) نے کہا کہ وہ احتجاج کو سرکاری طور پر سپورٹ نہیں کرتے” ۔ دونوں اداروں نے واضح کیا کہ یہ ایک عام تدریسی دن ہے اور جو طلبہ واک آؤٹ میں شریک ہوں گے، ان کی غیر حاضری “ناقابلِ قبول (Unexcused Absence)” سمجھی جائے گی۔کیتھولک بورڈ کے بیان کے مطابق: “احتجاج میں شریک ہونے والے طلبہ اساتذہ یا منتظمین کی نگرانی میں نہیں ہوں گے، اور ان کی غیر حاضری قابلِ جواز نہیں مانی جائے گی۔”
یہ احتجاج اس وقت ہو رہا ہے جب صوبے کے تعلیمی نظام میں اساتذہ کی تنخواہوں، کلاس سائز اور امتحانی پالیسیوں پر تنازع شدت اختیار کر چکا ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق، طلبہ کا یہ اجتماعی احتجاج حکومت کے لیے ایک نیا دباؤ ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ نوجوان طبقہ اپنی آواز خود بلند کرنے کے لیے تیار ہے۔