اردوورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )چیف جسٹس نے پورے ملک میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کے کیس کی سماعت میں کہا ہے کہ عدالت مذاکرات پر مجبور نہیں کر سکتی ہم نے صرف تجویز دی ہے
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ملک بھر میں ایک روزہ انتخابات کرانے کی درخواست کی سماعت کی۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 19 اپریل کو حکومت اور اپوزیشن میں پہلا رابطہ ہوا تھا اور 26 اپریل کو ملاقات پر اتفاق ہوا تھا، 25 اپریل کو ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق نے اسد قیصر سے ملاقات کی تاہم اسد قیصر کا کہنا تھا کہ وہ مذاکرات کیلئے بااختیار نہیں، منگل کو میڈیا سے معلوم ہوا کہ شاہ محمود قریشی مذاکرات کے مجاز ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ گزشتہ روز حکومتی اتحاد کی ملاقاتیں ہوئیں، دو جماعتوں کو مذاکرات پر اعتراض تھا، لیکن راستہ نکال لیا گیا۔ اسی لیے چیئرمین سینیٹ سے کہا گیا ہے کہ وہ مذاکرات کی کوشش کریں، دونوں کمیٹیاں آج پہلی بار ملاقات کی کوشش کریں گی
چیف جسٹس نے ریمارکس د ئیے کہ چیئرمین سینیٹ نہ حکومت کا نمائندہ ہے نہ اپوزیشن کا، اجلاس بلائیں گے اس میں وقت لگے گا۔ چاہتے ہیں تاکہ تنازعہ حل ہو، عدالت کو کسی وضاحت کی ضرورت نہیں، صرف حل بتا دیں، عدالت صرف آئین پر عمل کرنا چاہتی ہے تاکہ تنازعہ حل ہو۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ تمام حکومتی اتحادی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات پر آمادہ ہیں، سینیٹ واحد ادارہ ہے جہاں تمام جماعتوں کی نمائندگی ہے۔
فاروق نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سینیٹ کے چیئرمین کا کردار صرف سہولت کاری کا ہے اور مذاکرات سیاسی جماعتوں کی کمیٹیوں نے کرنے ہیں
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت کے اصرار پر عدالت نے سیاسی اتفاق رائے کا موقع دیا تھا، لیکن آج بھی پی ڈی ایم میں مذاکرات پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا، پی ٹی آئی نے مجھے، فواد چوہدری اور علی ظفر کو مذاکرات کے لیے نامزد کیا۔ ، آج تک مجھ سے کسی نے رابطہ نہیں کیا، کل صرف چیئرمین سینیٹ نے فون پر کہا کہ وہ وزیراعظم سے رابطہ کر رہے ہیں
شاہ محمود نے کہا کہ سینیٹ کمیٹی صرف تاخیری حربہ ہے، قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر قواعد کی خلاف ورزی کی گئی، کیونکہ عدالت میں زیر سماعت معاملہ پارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں لایا جا سکتا، پارلیمنٹ میں دھمکی آمیز لہجہ اور زبان استعمال کی گئی۔
حکومت سنجیدہ ہے تو مذاکرات کے لیے تیار ہیں، پی ٹی آئی مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہے، ہم آج بھی دھرنا دینے کو تیار ہیں۔
کل بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کے لیے نام دیں، کل بیٹھنے کو تیار ہیں، تین سے چار گھنٹے میں حکومت کے نام فائنل کر لیے جائیں گے، پی ٹی آئی چاہے تو 3 نام دے سکتی ہے، پانچ دینے ہوں گے، پھر بیٹھیں گے تو بات ہوگی۔ دلائل ہوں گے، حل ہو گا۔ایسا لگتا ہے کہ حکومت صرف پاس پاس کھیل رہی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے نیک نیتی دکھانے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں، لگتا ہے حکومت صرف پاس پاس کھیل رہی ہے، مذاکرات کے معاملے میں صبر و تحمل سے کام لیا جائے، عدالت کا کوئی حکم نہیں، یہ صرف ایک تجویز ہے، اور اگر آئین کے تحفظ کے لیے کوئی معاہدہ نہیں ہوا تو جوں کا توں جاری رہے گا، معاملہ ٹھنڈا رکھنے کے لیے فاروق نائیک کو بھی مذاکرات میں رکھا جائے۔
پی ٹی آئی کے علی ظفر نے کہا کہ ماحول سازگار ہوگا تو مذاکرات ممکن ہوں گے، مذاکرات کے لیے وقت مقرر کرنا ضروری ہے، مذاکرات میں تاخیر سے مقصد ختم ہوجائے گا۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بھی آئین میں تبدیلی نہیں کر سکتی، سیاسی جماعتوں کو الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں دینا چاہیے، اگر ایسا ہوا تو کوئی حکومت الیکشن کے لیے فنڈز جاری نہیں کرے گی، صرف آئین ہی سپریم ہے۔ پارلیمنٹ اور عدالت. جماعتوں کا اتفاق رائے بھی آئین کو تبدیل نہیں کرسکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آج توقع تھی کہ دونوں فریقین کی ملاقات ہوگی، مذاکرات پہلے ہونے چاہیے تھے، عدالتی فیصلے، آئین اور قانون موجود ہیں، ہم نہ تو کوئی ہدایت جاری کر رہے ہیں اور نہ ہی کوئی ٹائم لائن جاری کر رہے ہیں۔ ، کیس پر تحریری فیصلہ اور ایک مناسب حکم نامہ جاری ہوگا۔
سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی۔