اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ارشد شریف قتل کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سینئر صحافی ارشد شریف کی ہلاکت صرف انسانی حقوق کا معاملہ نہیں پاکستان چھوڑ کر کیوں گئے تحقیق ہونی چاہیے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے صحافی ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل ارشد شریف قتل کی تحقیقات میں کیا پیش رفت ہے؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پیش رفت رپورٹ جمع کرادی ہے، اسپیشل جے آئی ٹی نے 41 افراد کے بیانات قلمبند کیے، تحقیقات 3 حصوں پر مشتمل ہیں جن میں کینیا، یو اے ای اور پاکستان شامل ہیں۔
جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ تحقیقات کے 3 مراحل ہیں، ایک پاکستان، دوسرا دبئی اور تیسرا کینیا ہے۔ کیا پہلے مرحلے کی تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں؟ عامر رحمان نے کہا کہ فیز ون کی زیادہ تر تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں۔ کیا تفتیش مکمل ہونے کا کوئی ٹائم فریم ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ تفتیش مکمل ہونے کی ٹائم لائن دینا مشکل ہو گا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اقوام متحدہ کو تحقیقات میں شامل کرنے کا امکان ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ضرورت پڑنے پر یہ آپشن بھی موجود ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ تفتیش میں مداخلت نہیں کر رہے، عدالت جے آئی ٹی کو تحقیقات کے لیے آزادی دے رہی ہے، ارشد شریف قتل کی شفاف تحقیقات ہونی چاہیے کیونکہ عدالت اس پر بہت سنجیدہ ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ حکومت نے باہمی قانونی معاونت کا خط لکھنے میں تاخیر کی، ارشد شریف کی ہلاکت انسانی حقوق کا معاملہ ہی نہیں بلکہ سفاکانہ قتل بھی ہے، ان کے پاکستان سے جانے کی وجوہات کی تحقیقات ہونی چاہیے، کچھ ارشد شریف کی ڈیجیٹل ڈیوائسز جو ابھی تک نہیں ملیں، کیا جے آئی ٹی کو پتہ چلا کہ وہ ڈیوائسز کہاں ہیں؟ معلوم کریں کہ کیا وہ ڈیجیٹل ڈیوائسز کینین پولیس، انٹیلی جنس یا دونوں سے تعلق رکھتی ہیں؟ ارشد شریف قتل کیس جے آئی ٹی کے لیے ٹیسٹ کیس ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اقوام متحدہ کو تحقیقات میں شامل کرنے کے لیے وزارت خارجہ سے بات کریں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت فروری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردی۔