یہاں ہم خانہ کعبہ سے متعلق چند ایسے حقائق پیش کریں گے ،جن سے بہت کم لوگ واقف ہیں ، خانہ کعبہ کئی مرتبہ تعمیر ہو چکا ہے ، خانہ کعبہ جو آج ہمیں نظر آتا ہے یہ ویسا نہیں ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے دور میں تعمیر ہوا تھا ، وقت کے ساتھ پیش آنے والی قدرتی آفات اور حادثات کی وجہ سے اس کو دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت پڑتی رہی ، بے شک ہم جانتے ہیں کیہ خانہ کعبہ کی دوبارہ تعمیر کا ایک بڑا حصہ نبی کریم ؐ کی زندگی میں نبوت ملنے سے قبل ممکن ہو چکا تھا یہ وہ وقت تھا جب نبی کریم ؐ نے ایک بڑی خون ریزی کو اپنی دور اندیشی سے روکا تھا ۔ ایک بڑے کپڑے میں حجر اسود کو رکھ کر ہر قبیلے کے سردار سے اٹھوایا تھا اس کے بعد آنے والے وقتوں میں کئی مرتبہ خانہ کعبہ کی تعمیر ہوتی رہی ، آخر میں خانہ کعبہ کی تفصیل سے آرائش 1996میں ہوئی تھی جے کے نتیجے میں بہت سارے پتھروں کو ہٹا دیا گیا تھا اور بنیاد کو مضبوط کر کے نئی چھت ڈال دی گئی تھی ۔
یہ اب تک کی آخری بڑی تعمیر ہے اور اب خانہ کعبہ کی عمارت پہلے سے کئی زیادہ مضبوط تصور کیا جاتا ہے ۔ایک زمانے تک خانہ کعبہ میں کھڑکی ہوا کرتی تھی ۔خانہ کعبہ کی جو شکل آج موجود ہے اس میں صرف ایک دروازہ ہے کھڑکی نہیں ۔خانہ کعبہ ہفتے میں دو مرتبہ عوام کیلئے کھولا جاتا تھا اور کوئی بھی اندر جا کر عبادت کر سکتا تھا لیکن موجودہ زمانے میں زائرین کی تعداد زیادہ ہونے اور دوسری وجوہات کی بنا پر خانہ کعبہ کو اب سال میں صرف دو مرتبہ کھولا جاتا ہے اور اب صرف اعلی شخصیات اور خاص مہمان ہی داخل ہو سکتے ہیں اور لوگوں کو خانہ کعبہ کی ہمیشہ کالے رنگ او ر سونے کے دھاگوں میں دیکھنے کی ایسی عادت ہو چکی ہے کہ ہم اس کو کسی اور رنگ میں دیکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔
یہ روایت عباسد جن کے گھر کا رنگ کالا تھا کے دور سے چلی آرہی ہے لیکن اس سے قبل خانہ کعبہ مختلف رنگوں کے غلاف سے ڈھکا رہتا تھا اس میں ہرا لال اور سفید رنگ شامل ہے لیکن کیا آپ نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے حجر اسود چاندی کے سانچے میں کیوں گھر ا رہتا ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حجر اسود حجاج بن یوسف کی فوج کے ہاتھوں مارے گئے پتھر لگنے کے وقت ٹوٹ گیا تھا لیکن اس نے حضرت عبداللہ بن زیبرؓ پر لشکر کشی کی تھی ، کچھ سرائے کے مطابق حجر اسود بحرین سے تعلق رکھنے والے اسماعیلی گروپ کے ہاتھو ں ٹوٹ گیا تھا اور لوگوں کا خیال تھا کہ حج مبارک ایک توہم پرستی کا عمل ہے ۔
اپنی بات کو سچ ثاب کرنے کے لیے اور لوگوں نے دس ہزار حجاج کو مار کر ان کو آب زم زم کے کنویں میں پھینکوا دیا تھا۔یہ شیطان حجر اسود کو عرب کے مشرق میں لے گئے اور پھر عراق کے شہر کوفہ لے گئے جہاں اس کے عوض تاوان وصول کیا جب ان کو مجبور کیا گیا تو ان لوگوں نے اسے خلیفہ عباسد کو واپس کر دیا ۔لیکن جب اسے واپس کیا گیا تو یہ ٹکڑوں میں تھا اور اس کو یکجا کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ سمجھ میں آر ہا تھا کہ اس کو چاندی کے سانچے میں رکھا جائے ۔کچھ تاریخ دانوں کے مطابق اس مقدس پتھر کے کچھ حصے آج بھی کہیں گم ہیں ، خانہ کعبہ کے بلکل اوپر ساتویں آسمان میں ایک اور خانہ کعبہ موجود ہے جسے بیت المعمور کہتے ہیں ۔اس کا اشار ہ قرآ ن پاک میں موجود ہے ،
اور نبی پاک ؐ نے بھی اس کی نشاندہی کی کہ اللہ کےپیارے نبی ؐ نے معراج کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا جب مجھے بیت المعمور دیکھایاگیا تو میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا انہوں نےجواب دیا یہ بیت المعمور ہے جہاں ستر ہزار فرشتے روزانہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور جب وہ یہاں سے جاتے ہیں تو واپس نہیں آتے ہمیشہ نیا دستہ آتا ہے یعنی ایک فرشتے کو صرف اس کے طواف کی ایک مرتبہ سعادت ملتی ہے ۔خانہ کعبہ مسجد الحرام کے وسط میں واقع اہم اور دنیا کی سب سے مقدس ترین عمارت ہے ۔ عرش میں جب اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ انسان حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرے ، شیطان کے انکار کے بعد سبھی کے خداوند کریم کو کیسے راضی کیا جائے اور اللہ کی خوشنودی حاصل کی جائے ۔
تب حکم الہی پر فرشتوں نے عرش کے نیچے چار ستونوں پر قائم ایک خوبصورت بیت المعمور کے نام سے تعمیر کیاتو اللہ نے فرشتو ں کو اس کا طواف کرنے کا حکم دیا اس کا طواف کرنے کے لیے روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور جو فرشتہ ایک بار داخل ہوتا تو نکلنے کے بعد دوبارہ داخل ہونے کیلئے قیامت تک اس کی باری نہیں آئے گی ۔اس کے بعد اللہ تعالی نے فرشتوں کو حکم دیا کہ بیت المعمور کی طرح زمین پر بھی میرا گھر بنائیں جس کا طواف میرے بندے کریں ۔ انہوں نے بیت اللہ شریف کی تعمیر کی اور اس کا نام الزراہ رکھا گیا ۔فرشتوں نے اس کا حج بھی کیا ۔
حضرت آدم علیہ السلام جب زمین پر تشریف لائے تو عرض کیا یا اللہ تسبیح اور عبادت کرنےکےلیے کوئی عباد گاہ نہیں ، جب حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور وہاں پہنچے جہاں زمین بنی ہوئی تھی یعنی جس جگہ جھاگ پیدا ہوئی جو پھیل کر پوری زمین بن گئی اللہ تعالی نے بادل کا ٹکڑ ا بھیجا تاکہ اس کے سائے میں کعبے کی حد مقرر کی جائے ۔تعمیر کے بعد حضرت آدم علیہ السلام اس کا طواف اور عبادت کرتے طوفان نو ح علیہ السلام کے بعد یہاں صرف مٹی کا ڈھیر رہ گیا اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذمے اس کی تعمیر ہوئی ۔
ارشا د باری تعالی کا مفہوم ہے اور جب ہم نے ابراہیم کو قبلے کی جگہ مقرر کر دی اور اس شرط پر کے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرنا ۔میرے گھر کو طواف ، رکوع ، قیام اور سجدے کے لیے صرف رکھنا ( سورہ حج )اسی طرح روئے زمین پر پہلی اسلامی مسجد ، مسجد حرام کے نام سے تعمیر ہوئی جس کی اونچائی تین اطراف میں پینتالیس ، بتیس اور سینتیس میٹر بلند تھی ۔عرب اور ایران کے درمیان ملک عراق میں نمرود کی حکومت قائم تھی ، شہر ببل کے قریب شہرارنامی بستی میں سامی قبیلے کے طارق نامی شخص جن کے گھر میں بت پرستی عام تھی ۔ اس گھر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ آپ علیہ السلام کی ولادت طوفان نوح کے سترہ سال کے بعد جب کے حضرت عیسی علیہ السلام سے چار سو سال پہلے ہوئی ۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا فلسطین میں پیدا ہوئے تو حضرت ابراہیم حکم ربی سے اپنی بیوی حضرت حاجرہ علیہ السلام کو لے کر اس جگہ پہنچے جہاں خانہ کعبہ کے کھنڈرات تھے وہیں جھونپڑی بنا کر انہیں ٹھہرایا اور دعا مانگی ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام واپس تشریف لے گئے جب دوسری کے بعد تیسری مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہاں تشریف لائے تب حضرت حاجرہ کا وصال جب کے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر 20سال ہو چکی تھی ۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام واپس تشریف لائے تو حضر اسماعیل علیہ السلام زم زم کے پاس درخت کے نیچے بیٹھے تیر بنا رہے تھے ، آپ علیہ السلام نے فرمایہ بیٹے اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ میں اللہ کے گھر کی تعمیر کروں ۔ خانہ کعبہ کی بنیادوں میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے مدد کی یوں کعبہ کی تعمیر کا آغاز ہوا ۔کھدائی کے دوران قدیم بنیادیں ظاہر ہوئیں ، حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑھاپے میں معمار اور حضرت اسماعیل علیہ السلام مزدور کی طرح تعمیرمیں لگ گئے ۔ حضرت جبریل کوہ لبنان ، کوہ حرا ،کوہ ابو قیس، کوہ صفا اور مروہ سے پتھر لاتے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کعبہ میں لگاتے
جب کعبے کی دیواریں بلند مقام پر پہنچ گئیں تو مزید تعمیر کیلئے جبرائیل علیہ السلام کی نشانی پر چھوٹی سے گھو سے دو پتھر لائے گئے اس میں سے ایک حجر اسود اور دوسرا مقام ابراہیم کے نام سے متعارف ہوا ۔حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے جب حجر اسود جنت سے اترا تو وہ دودھ کی طرح سفید تھا مگر انسانوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کر دیا ( بخاری شریف ) مقام ابراہیم بھی جنت کے یاقوت میں سے ہے جیسے جیسے دیواربلند ہوتی اسی طرح یہ پتھر بھی اونچا ہوتا جاتا تھا اسی پتھر پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حج کا اعلان کیا تھا ۔
اس پتھر پرحضرت ابراہیم علیہ السلام کے دونوں پائوں مبارک کے نشان اب بھی واضح ہیں ۔یہ بیت اللہ بغیر چھت کے مستطل نما جس کے دودروازے جو زمین کے برابر تھے جن سے ہر خاص و عام کوگزرنے کی اجازت تھی ۔خانہ خدا کا یہ انداز صدیوں رہا ، قریش نے بیت اللہ کے شمال کی طرف تین ہاتھ چھوڑ کر مکب نما یعنی کعوی بنایا اور چھت ڈال دی ۔مغربی دروازہ بند جب کہ مشرقی دروازے کو بلند کر دیا ۔ حجر اسود کو دوبارہ رکھنے کا مشہور واقعہ بھی اسی دور کا ہے موذ ن اسلام حضرت بلال حبشی ؓ کو خانہ کعبہ کی چھت پر سب سے پہلے آذان دینے کا شرف حاصل ہوا ۔خانہ کعبہ کے تین ستون ، دو چھتیں اور ایک دروازہ ہے ،کعبے کے اندر کن عراق کے ساتھ باب توبہ ہے اندر ایلومینیم کی پچا س سیڑھیاں ہیں جو چھت تک جاتی ہیں
چھت پر سوا میٹر شیشے کا ایک حصہ ہے جو قدرتی روشنی اند پہنچاتا ہے ، خانہ کعبہ کے اندر سنگ مر مر سے تعمیر قیمتی ہیرے لٹکے ہوئے ہیں ۔ قدیم روایات کے مطابق ایک صندوق بھی ہے ، کعبہ کی موجودہ عمارت 1996 میں تعمیر کی گئی جب کے توسیع کا عمل بھی جاری رہتاہے ۔عمارت 14 میٹر اونچی دیواریں،ایک میٹر سے زیادہ چوڑی ہے ،اس کے شمال کی جانب نصف دائرے میں جو جگہ ہے اسے حطیم کہتے ہیں ۔اسی دیوار کے باہر طواف کیا جاتا ہے ، کعبہ شریف سے سوا تیرہ میٹر مشرق میں مقام ابراہیم ہے ، انیس سو سڑسٹھ سے پہلے اس جگہ کمرہ تھا جو اب سونے کی جالی میں بند ہے اس مقام کو مصلے کا درجہ حاصل ہے ۔ امام کعبہ اس کی طرف سے کعبہ کی جانب رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں ، حجر اسود کعبہ کے جنوب مشرق میں تقریبا اڑھائی فٹ قطر کے چاندی میں چڑھے مختلف شکلوں کے چھوٹے چھوٹے آٹھ سیاہ پتھر ہیں ۔کعبہ شریف کا طواف حجر اسود سے ہی شروع ہوتا ہے ۔
مسجد حرام کے جنوب مشرق میں اکیس میٹر فاصلے پر آب زم زم کا کنواں ہے جو چا ر ہزار سال قبل معجزے کی صورت میں کعبہ کے بے آب ریگستانی علاقے میں جاری ہوا ۔کعبہ کے دروازے کو باب کعبہ کہتے ہیں۔ جو زمین سے دو عشاریہ تین میٹر بلند ہے ۔خانہ کعبہ کے جنو ب مغرب کونے کا نام رکن یمانی ہے ، غلاف کعبہ کی ابتدا بنی اسرائیل نے کی تھی وہ ہمیشہ سیاہ رنگ کے ریشم سے تیار اور سال میں ایک مرتبہ تبدیل کیا جاتا تھا ، سعودی حکومت نے ا س کی تیاری کے لیے الگ کارخانہ قائم کر رکھا ہے ، باب کعبہ اور اور حجر اسود کے درمیان دیوار کا حصہ ملتزم کہلاتا ہے ۔یہ وہ مقام ہیں جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔کعبے کی چھت پر لگے پرنالے کو میزاب رحمت کہتے ہیں ،یہ پرنالہ سونے کا ہے ۔
آخر میں سعود ی فرمانروا شاہ فہد نے خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کروائی اس کے ساتھ مسجد الحرام کی تاریخی توسیع کا منصوبہ شامل ہوا اس منصوبے سے کعبے کے شمال مشرقی او ر شمال مغربی حصے میں چار لاکھ مربع میٹر سے زائد جگہ کا اضافہ ہوا اور ابھی تک اس کی توسیع کا کام جاری ہے جہاں اس وقت دنیا بھر سے لاکھوں حجاج کرام حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں ،آج خانہ کعبہ کی اونچائی پندرہ میٹر تاہم اس کی چوڑائی ہر جانب مختلف پیمائش رکھتی ہے ،