اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) حکومت پاکستان نے 5 آئی پی پیز کے مالکان کو خبردا کیا ہے کہ وہ رضا کارانہ طور پر معاہدے ختم کر دیں ورنہ نتائج کیلئے تیار ہو جائیں ، حکومت اگلے تین سے پانچ سالوں تک مذکورہ آئی پی پیز کو 139 سے 150 بلین روپے (صلاحیت کے لحاظ سے) ادا نہیں کرے گی۔ 1994 کی پالیسی کے تحت قائم کیے گئے چار آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے مالکان اور 2002 کی پالیسی کے تحت ایک آئی پی پی قائم کی گئی۔. ان سے کہا گیا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر پاور پرچیز ایگریمنٹس کو منسوخ کریں اور ‘پاور دیں اور ادائیگی کریں سسٹم کو اپنائیں یا نتائج کا سامنا کریں۔
اس پیش رفت سے آگاہ ذرائع نے بتایا ہے کہ ان پانچ آئی پی پیز کے مالکان کو بتایا گیا ہے کہ حکومت مذکورہ آئی پی پیز کو ان کی صلاحیت کی بنیاد پر اگلے تین سے پانچ سال تک چارج کرے گی (صلاحیت کے لحاظ سے)۔ 139 سے 150 بلین روپے ادا نہیں کیے جائیں گے۔ ان پانچوں اداروں کے مالکان کو سختی سے بتایا گیا ہے کہ حکومت نے پہلے ہی مذکورہ آئی پی پیز کو صلاحیت کی ادائیگی اور ایکویٹی پر ریٹرن کی صورت میں اضافی ادائیگیاں کی ہیں جبکہ آئی پی پیز کے قرضے بھی ادا کر دیے گئے ہیں۔اس سلسلے میں ایک آئی پی پی کے مالک نے ٹاسک فورس کے اہم عہدیداروں کو جواب دیا ہے کہ اگر حکومت 55 ارب روپے ادا کرتی ہے تو وہ نہ صرف معاہدہ ختم کرنے کے لیے تیار ہیں بلکہ پلانٹ حکومت کے حوالے کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔
تاہم مالک کو بتایا گیا ہے کہ اسے مذکورہ رقم ادا نہیں کی جائے گی اور نہ ہی اسے پلانٹ کا کنٹرول دیا جائے گا، اس کا واحد آپشن معاہدہ ختم کرنا ہے۔. ٹاسک فورس نے نشاندہی کی ہے کہ کمپنی کی انتظامیہ نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیگر پاور پلانٹس کے لیے رقم وصول کرنے کے لیے پلانٹ کو ضمانت کے طور پر استعمال کرکے حکومت کے ساتھ اپنے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔انتظامیہ کی طرف سے اٹھائے گئے یہ اقدامات انتہائی سنگین اور مجرمانہ کارروائی شروع کرنے کے لیے کافی ہیں۔. مالکان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان کے آئی پی پیز نے 2020 سے 2024 کے دوران آپریشنز اور مینٹیننس (O&M) کے نقصانات کو غلط انداز میں پیش کرکے اور حکومت کو دھوکہ دے کر اربوں روپے کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔