اردوورلڈ کینیڈا( ویب نیوز)چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کے حق میں فیصلے دینے والے آٹھ ججوں کے خلاف جارحانہ پالیسی اب بھی برقرار ہے۔
12 جولائی کو مختصر حکم کے سات دن بعد چیف جسٹس نے کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے دو سینئر ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر پر زور دیا کہ وہ مسلم لیگ ن کی نظرثانی کی درخواست سنیں لیکن اکثریت نے اتفاق نہیں کیا۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے نظرثانی کی درخواست کی ابتدائی تاریخ مقرر کرنے پر اختلافی نوٹ میں اکثریتی رائے پر تشویش کا اظہار کیا۔. سپریم کورٹ کے سینئر ججوں کے درمیان اختلاف اس وقت دیکھا گیا جب کمیٹی کے دو ججوں نے اجلاس کے منٹس میں تبدیلی کی۔.
ذرائع نے بتایا کہ یکم اگست کی کمیٹی کے اجلاس کے منٹس دونوں اراکین کی منظوری اور دستخط کے بغیر ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے گئے تھے۔
چیف جسٹس نے اس سے قبل ایکسائز ایکٹ 2005 پر فیصلہ لکھنے میں جسٹس ا طہرمن اللہ کی تاخیر پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا۔. عدالتی امور میں ایجنسیوں کی مداخلت پر مارچ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط کے بعد سے دونوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔
حال ہی میں چیف جسٹس نے ویب سائٹ پر آٹھ ججوں کا بیان اپ لوڈ کرنے کے لیے رجسٹرار سپریم کورٹ سے وضاحت طلب کی ہے۔. اس حوالے سے جب رابطہ کیا گیا تو ایک سینئر وکیل نے کہا کہ زیادہ تر وقت کونسلیں حکومت کے کنٹرول میں رہتی ہیں، موجودہ صورتحال پر وکلاء میں اختلاف ہے۔
ایک اور وکیل نے کہا کہ ججوں کی اکثریت کو چیف جسٹس کے رویے کا جواب دینے سے گریز کرنا چاہیے۔. موجودہ صورتحال بار کونسلز اور عوام کا امتحان ہے۔. وہ آئینی عدالت کے قیام کو روکنے کے لیے تفصیلی فیصلہ جاری کرنے میں تاخیر کر رہے ہیں۔. بعض وکلاء کا کہنا تھا کہ آئینی عدالت کا قیام عدلیہ کی آزادی کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔
32