اردوورلڈکینیڈا( ویب نیوز)کینیڈا کے صوبے البرٹا میں علیحدگی کے حامیوں کے لیے ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں انتخابات البرٹا (Elections Alberta) نے پیر کے روز اس مجوزہ ریفرنڈم سوال کی منظوری دے دی ہے جس میں صوبے کے کینیڈا سے الگ ہو کر ایک خودمختار ریاست بننے سے متعلق عوامی رائے طلب کی جائے گی۔ منظور شدہ سوال کے تحت ووٹرز سے “ہاں” یا “نہیں” میں جواب مانگا جائے گا
یہ بھی پڑھیں : البرٹا کی کینیڈا سے علیحدگی کی بحث تیز،نئے عوامی ریفرنڈم کی راہ ہموار
“کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ صوبہ البرٹا کینیڈا کا حصہ رہنا بند کر دے اور ایک آزاد ریاست بن جائے؟”
انتخابات البرٹا کے مطابق اس ریفرنڈم کی درخواست دینے والے گروپ البرٹا پراسپرٹی پراجیکٹ اور اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مچ سلوَسٹر کو جنوری کے اوائل تک اپنی پٹیشن مہم کے لیے ایک مالیاتی افسر مقرر کرنا ہوگا۔ اس مرحلے کے بعد دستخط جمع کرنے کا عمل باضابطہ طور پر شروع کیا جا سکے گا۔ قوانین کے تحت سلوَسٹر کو چار ماہ کے اندر اندر تقریباً ایک لاکھ اٹھہتر ہزار (178,000) مستند دستخط جمع کرنا ہوں گے۔ اگر یہ ہدف پورا ہو جاتا ہے تو یہ سوال صوبے بھر میں ریفرنڈم کے ذریعے عوام کے سامنے رکھا جائے گا۔
البرٹا پراسپرٹی پراجیکٹ نے اس منظوری کو سوشل میڈیا پر “صوبے کے لیے ایک بڑی کامیابی” قرار دیا اور کہا کہ یہ وہ اہم پیش رفت ہے جس کے لیے وہ طویل عرصے سے جدوجہد کر رہے تھے۔ مچ سلوَسٹر، جو وزیر اعلیٰ ڈینیئل اسمتھ کی یونائیٹڈ کنزرویٹو پارٹی کے ایک حلقہ جاتی عہدیدار بھی ہیں، کا مؤقف ہے کہ وفاقی حکومت کی تیل و گیس کی پیداوار پر پابندیاں اور وفاقی انتخابی نظام میں تبدیلی کے کم امکانات البرٹا کے لیے مایوس کن ہیں۔
ایک انٹرویو میں سلوَسٹر نے کہا کہ حالیہ وفاقی انتخابات میں لبرلز کی کامیابی کے بعد انہیں یقین ہو گیا ہے کہ البرٹا میں بیٹھ کر وفاقی سطح پر تبدیلی لانا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ ان کے بقول، “اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کریں۔”
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے گروپ کے پاس پہلے ہی دو ہزار رضاکار دستخط جمع کرنے کے لیے تیار ہیں، جبکہ دو لاکھ چالیس ہزار سے زائد افراد ماضی میں دستخط کرنے کی آمادگی ظاہر کر چکے ہیں۔ سلوَسٹر کا کہنا تھا کہ یہ مہم غیر جماعتی ہے اور اس کا مقصد تمام البرٹنز کے لیے بہتر مستقبل کی راہ ہموار کرنا ہے، خاص طور پر آنے والی نسلوں کے لیے۔
یہ سوال اس سے قبل جمع کرائے گئے ایک ملتے جلتے سوال سے مشابہ ہے، جس میں البرٹا کو ایک “خودمختار ملک” بنانے کی بات کی گئی تھی۔ وہ سوال عدالتی جائزے میں آئینی بنیادوں پر روک دیا گیا تھا۔ بعد ازاں صوبائی حکومت نے شہریوں کی جانب سے شروع کیے جانے والے ریفرنڈمز کے قواعد میں تبدیلی کر دی، جس کے نتیجے میں نئے سرے سے درخواست دینا ممکن ہوا اور انتخابی حکام کو آئینی یا حقائق سے متعلق اعتراضات کی بنیاد پر سوال مسترد کرنے کا اختیار محدود کر دیا گیا۔
جسٹس کولن فیزبی نے اپنے فیصلے میں نشاندہی کی تھی کہ کینیڈا سے علیحدگی کی صورت میں شہری حقوق، بشمول وفاقی ووٹ کا حق اور نقل و حرکت کی آزادی، متاثر ہو سکتے ہیں، اور ایسے کسی بھی اقدام کے لیے آئینی ترمیم اور مذاکرات ناگزیر ہوں گے۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ شہریوں کو ایسے سوالات اٹھانے کا جمہوری حق حاصل ہے۔
صوبائی وزیرِ انصاف کے دفتر کے مطابق، اگر علیحدگی کے حامی واقعی عوامی حمایت رکھتے ہیں تو یہ عمل انہیں اسے ثابت کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سلوَسٹر نے بھی امید ظاہر کی کہ چاہے نتیجہ کچھ بھی ہو، یہ ریفرنڈم عوام کو اپنے مستقبل کے بارے میں باخبر فیصلہ کرنے کا حق دے گا، جو جمہوریت کی اصل روح ہے۔