اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطابندیال نے کہا ہے کہ آرمی ایکٹ مخصوص کلاس پر لگتا ہے،سب پر نہیں ۔بدھ کو سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجربینچ نے سماعت کی ۔ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ کا حصہ تھے۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اپنے تحریری جواب سے متعلق دلائل دوں گا، تحریری جواب پڑھوں گا کیونکہ 9 مئی کے واقعات کی ٹائم لائن سامنے رکھنا چاہتا ہوں، 9 مئی کو 3 سے 7 بجے کے درمیان مختلف علاقوں میں فوجی تنصیبات اور املاک کو نقصان پہنچایا گیا، میانوالی میں ایم ایم عالم کا استعمال کردہ جہاز توڑ دیا گیا تھا، کور کمانڈر ہاوس لاہور کو شدید نقصان پہنچایا گیا، پنجاب میں 62 جگہوں پر حملہ کیا گیا جس میں 52 افراد زخمی ہوئے
، املاک کو ڈھائی ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا، فوجی تنصیبات کو تقریبا ڈیڑھ ارب کا نقصان پہنچایا گیا، 149 گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ اٹارنی جنرل نے 9 اور 10 مئی کے واقعات کی تصاویر عدالت میں پیش کر دیں اور بتایا کہ جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر ون پر حملہ کر کے حملہ آور اندر داخل ہوئے، جی ایچ کیو میں فوجی مجسمے کو توڑا گیا، جی ایچ کیو راولپنڈی میں آرمی ہسٹری میوزیم پر حملہ کیا گیا، جی ایچ کیو میں آرمی سگنلز آفسرز میس پر حملہ کیا گیا، آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملہ کیا گیا، آئی ایس آئی حمزہ کیمپ راولپنڈی پر حملہ کیا گیا۔اٹارنی جنرل نے کور کمانڈر ہاوس لاہور کی تصاویر بھی بینچ کو پیش کر دیں اور بتایا کہ حملہ آوروں نے 9 مئی کو پیٹرول بم استعمال کئے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ کیا مظاہرین نے مسجد پر بھی حملہ کیا؟ ۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے انہیں بتایا کہ مظاہرین نے 9 مئی کو کور کمانڈر ہاوس کے اندر مسجد پر بھی حملہ کیا، ایک حملہ آور نے کور کمانڈر کی وردی پہن لی تھی، فوجی افسران پولیس کی طرح مظاہرین سے لڑنے کے لیے ٹرینڈ نہیں ہوتے۔چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوجی صرف گولی چلانا جانتے ہیں؟۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ فوجی افسران کو اس طرح کے جتھوں کو منتشر کرنا نہیں سکھایا جاتا، گوجرانوالہ میں فوجی تنصیبات اور فیصل آباد میں آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ ہوا، پشاور میں ہائی کورٹ کے قریب ایمبولینسز جلائی گئیں، بنوں کیمپ پر بھی حملہ کیا گیا، سی ایم ایچ ایبٹ آباد پر بھی حملہ کیا گیا، موٹر وے ٹول پلازہ بھی جلا دیا گیا، تصاویر دکھانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ایک واقعہ نہیں تھا، 9 اور 10 مئی کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حملے کیے گئے، ملک میں دہشت گردی کے واقعات بھی ہوتے ہیں، پورے ملک کے مرکزی شہری علاقوں میں حملے کیے گئے، کور کمانڈر ہائوس جلایا گیا اور وہاں موجود چیزوں کو توڑا اور جلایا گیا، راولپنڈی بار کیس میں سول نوعیت کے جرائم کو آرمی ایکٹ میں لے جایا گیا تھا۔جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ اس وقت حالات مختلف تھے، ملٹری ایکٹ کے تحت ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم کی گئی تھی۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ 9 مئی کے واقعات میں جن جرائم کے تحت چارج لگایا گیا یہ آرمی ایکٹ میں آتے ہیں۔جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ جن افراد کا آپ ٹرائل کرنا چاہ رہے ہیں وہ سویلینز ہیں، کیا آرٹیکل 175/2 کو مدِ نظر رکھے بغیر سویلینز کا ٹرائل ہو سکتا ہے؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پوائنٹ یہ ہے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات اپنی نوعیت کے پہلے واقعات تھے، آپ کے مطابق 9 مئی سے پہلے کبھی کسی سویلین نے فوجی تنصیبات پر حملہ نہیں کیا، آئینی سوالات سے پہلے کچھ سوالات کا جواب ضروری ہے، جو 102 افراد فوجی حراست میں ہیں ان کا تحفظ کیسے یقینی بنایا جائے گا؟ یہ نکتہ بھی ہے کہ مجسٹریٹ کے اختیارات دوسرا کون استعمال کر سکتا ہے؟ فوجداری معاملات کا ماہر نہیں ہوں مگر جو دفعات لگائی گئیں ان کو بھی دیکھنا ہو گا، درخواست گزار یہ نہیں کہہ رہے کہ ان افراد کو رہا کر دیں اور سزا نہ دی جائے، صرف یہ بتا دیں کہ کیسے ان افراد کا کیس غیر جانبداری سے دیکھا جائے گا؟ کون سی دفعات لگائی گئی ہیں؟۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ ملزمان کے جرائم سول نوعیت کے نہیں ہیں، ملزمان پر دفعہ 302 کا اطلاق بھی کیا گیا ہے۔جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا کسی آرمی افسر کی ڈیتھ بھی ہوئی؟اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ کسی آرمی افسر کے جانی نقصان کی کوئی اطلاعات نہیں ہیں