اردوورلڈ کینیڈا( ویب نیوز)ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی محصولات عائد کرنے کی دھمکی نے کینیڈین ڈالر کو 2020 کے بعد اپنی کم ترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔
امریکی نو منتخب صدر نے اعلان کیا کہ وہ جنوری میں اپنا عہدہ سنبھالتے ہی کینیڈین اشیا پر 25 فیصد ٹیرف عائد کریں گے۔ ٹرمپ کی دھمکی کی وجہ سے کینیڈین ڈالر مزید گرا، جو پہلے ہی امریکی ڈالر کے مقابلے میں کمزور تھا۔ حال ہی میں، 1 کینیڈین ڈالر 71 امریکی سینٹ سے نیچے چلا گیا۔
BMO کیپٹل مارکیٹس کے سینئر ماہر معاشیات رابرٹ کیوِک کے مطابق، "مالی منڈیاں اس وقت تجارت پر بڑھتے ہوئے خطرے پر ردعمل ظاہر کر رہی ہیں۔ یہ نیا اشارہ کینیڈا کی کرنسی کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، جو پہلے ہی گھریلو اقتصادی عوامل کی وجہ سے دباؤ میں ہے۔
رابرٹ نے یہ بھی کہا کہ بینک آف کینیڈا کی طرف سے شرح سود میں کمی اور معتدل اقتصادی ترقی نے پہلے ہی کینیڈین ڈالر کو کمزور کر دیا ہے۔ اس سال، بینک آف کینیڈا نے شرح سود میں چار بار کمی کی ہے، جس میں اکتوبر میں 50 بیسس پوائنٹ کی کٹوتی بھی شامل ہے۔
ٹرمپ نے پیر کو اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر پوسٹ کیا کہ وہ کینیڈا اور میکسیکو کی تمام مصنوعات پر 25 فیصد ٹیرف عائد کریں گے۔ ٹرمپ کے مطابق، محصولات اس وقت تک برقرار رہیں گے جب تک کہ دونوں ممالک منشیات – خاص طور پر فینٹینیل — اور غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے والے افراد کو روکنے کے لیے سخت اقدامات نہیں اٹھاتے۔
تاہم یہ دھمکی ابھی تک امریکی حکومت کی پالیسی نہیں بن سکی ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ پالیسی بنائی بھی گئی تو یہ صرف عارضی ہوگی۔ کارپے کے چیف مارکیٹ اسٹریٹجسٹ کارل شماؤٹا نے کہا، "سرمایہ کار ٹرمپ کی دھمکی کے عملی ہونے کی توقع نہیں رکھتے۔”
اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو پہلے ہی ٹرمپ کے مطالبات تسلیم کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ "ٹرمپ کی سوشل میڈیا پوسٹ تجارتی گفتگو کا آغاز معلوم ہوتی ہے،” کارل شموتا نے کہا۔ ایک کمزور کینیڈین ڈالر کینیڈینوں کے لیے امریکہ میں خریداری کرنا زیادہ مہنگا ہو جائے گا۔ خاص طور پر بلیک فرائیڈے کے دوران، جو سرحد پار خریداری کا موسم ہے۔ دوسری طرف، امریکی ڈالر سے خریدنے والے لوگوں کے لیے کینیڈین مصنوعات سستی ہوں گی۔
ٹرمپ کی دھمکی کینیڈین ڈالر کے لیے بہت بڑا دھچکا ثابت ہوئی ہے۔ اگرچہ یہ حالات عارضی ہونے کا امکان ہے، لیکن ان کے کاروبار اور معیشت پر طویل مدتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے سرکاری اور مالیاتی اداروں کو کوششیں کرنا ہوں گی۔