اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )غزہ جنگ بندی معاہدے کا سہرا اپنے سرلیتے ہوئے ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ نومبر میں ان کی تاریخی انتخابی کامیابی کے بغیر یہ معاہدہ ممکن نہیں تھا۔
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ٹروتھ سوشل’ پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک معاہدہ طے پا گیا ہے اور انہیں جلد ہی رہا کر دیا جائے گا۔ایک اور پیغام میں ٹرمپ نے زور دیا کہ نومبر کی فتح نہ صرف ان کے لیے بلکہ امریکہ اور دنیا کے لیے ایک نئی شروعات ہے۔. انہوں نے کہا کہ اس تاریخی فتح نے اس معاہدے کی بنیاد رکھی، اور یہ کہ انہوں نے وائٹ ہاؤس واپس آنے سے پہلے بہت کچھ حاصل کیا تھا۔ٹرمپ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کم ہو رہی ہے اور بین الاقوامی مبصرین اس معاہدے کو ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔تاہم، ٹرمپ کے دعوے نے سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے کہ آیا یہ کامیابی واقعی ان کے انتخابی نتائج کا نتیجہ ہے یا اس میں دیگر عوامل بھی شامل ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ جنگ بندی معاہدے کو امریکہ کی بہترین سفارت کاری کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاہدہ امن اور خطے میں انسانی امداد کی فراہمی کے لیے ایک اہم قدم ہے۔بدھ کے روز وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمن بن جاسم الثانی نے قطری دارالحکومت دوحہ میں اعلان کیا کہ قطر، مصر اور امریکہ کی مشترکہ کوششوں سے غزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ جنگ بندی 19 جنوری سے نافذ العمل ہوگی اور اس معاہدے کے تحت حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی پر عمل درآمد جاری ہے۔
اس موقع پر امریکی صدر بائیڈن نے اپنے بیان پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ معاہدے کے تحت اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ امریکہ کی مسلسل اور انتھک سفارت کاری کا نتیجہ ہے جس سے نہ صرف غزہ میں لڑائی روکنے میں مدد ملے گی بلکہ فلسطینی شہریوں کو ضروری انسانی امداد بھی فراہم کی جائے گی۔غزہ جنگ بندی معاہدہ تین مرحلوں پر مشتمل ہے۔. پہلے مرحلے میں اسرائیلی فورسز غزہ کی سرحد کے اندر 700 میٹر تک محدود رہیں گی جبکہ اسرائیل تقریباً 2000 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا جن میں 250 لائفرز بھی شامل ہیں۔صدر بائیڈن نے کہا کہ یہ معاہدہ یرغمالیوں کو 15 ماہ سے زائد عرصے کے بعد ان کے اہل خانہ کے ساتھ دوبارہ ملنے کی اجازت دے گا اور اس سے خطے میں کشیدگی میں کمی آئے گی۔