اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )سپریم کورٹ میں پنجاب میں انتخابات کرانے کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہے، معاملات خفیہ ملاقاتوں سے نہیں چلائے جا سکتے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے دائر نظرثانی درخواستوں کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے اور عدالت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں، صدر مملکت کی منظوری کے بعد نظرثانی قانون بنا دیا گیا ہے۔
جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ نظرثانی شدہ قانون کا سن کر وکیل الیکشن کمیشن کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔
اٹارنی جنرل نے بینچ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا نظرثانی ایکٹ اب قانون بن چکا ہے، نئے ایکٹ کے تحت نظرثانی کا دائرہ اپیل جیسا ہی ہوگا، اب صرف لارجر بینچ ہی نظرثانی کی سماعت کرسکے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس د ئیے کہ جوڈیشل کمیشن کیس کی سماعت جمعرات کو ہے، آپ اس حوالے سے حکومت سے بھی ہدایات لیں، نیا قانون آیا ہے، ہم سمجھ رہے ہیں، آج سماعت ملتوی کرتے ہیں، تحریک انصاف کو بھی پتہ چل جائے گا قانون سازی کے بارے میں .
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ آپ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس میں ہمارا حکم پڑھا ہوگا، خیال رہے کہ عدالت نے کمیشن کو کالعدم نہیں کیا، عدالت نے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہے، خفیہ ملاقاتیں نہیں کرتیں
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ہم نے میموگیٹ، ایبٹ آباد کمیشن اور شہزاد سلیم قتل کمیشن کا نوٹیفکیشن دیکھا، تمام جوڈیشل کمیشنز میں کمیشن چیف جسٹس کی مرضی سے بنائے گئے آپ کسی چیز کی تحقیقات کرنا چاہتے ہیں تو باقاعدہ طریقہ کار سے آجائیں، میں خود پر مشتمل کمیشن نہیں بنا ئوں گا، تحقیقات کسی اور جج سے کرائیں سیاسی پارہ ہائی رکھنے سے معیشت اور امن و امان میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت جمعرات (یکم جون) تک ملتوی کردی۔