عالمی عدالت انصاف کا غزہ میں امداد کی تقسیم یقینی بنانے کا حکم

اردو ورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز ) عالمی عدا لت انصاف (International Court of Justice) نے ایک مشاورتی رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں محصور فلسطینیوں کو انسانی امداد فراہم کرنے کا پابند ہے ۔

اسے اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں کو امدادی سرگرمیوں کے لیے اجازت دینا ہوگی۔بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ اسرائیل کو اقوام متحدہ کے ادارے برائے ریلیف و ورکس (UNRWA) اور دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے تاکہ امداد متاثرین تک پہنچ سکے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ اسرائیل نے یہ ثابت کرنے میں ناکامی ظاہر کی کہ یو این آر ڈبلیو اے کے بہت سے ملازمین دراصل حماس کے ارکان ہیں۔
اپریل 2025 میں فلسطینی نمائندوں اور اقوام متحدہ کے وکلا نے عالمی عدالتِ انصاف میں یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ اسرائیل نے مارچ سے مئی کے دوران غزہ میں امداد کی مکمل ناکہ بندی کرکے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔اسرائیل نے اس وقت یہ الزام لگایا تھا کہ حماس کے جنگجو امداد چوری کر رہے ہیں، تاہم عدالت کے سامنے وہ اس دعوے کے ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ غزہ کے شہریوں کو ناکافی خوراک فراہم کی جا رہی ہے، جب کہ بھوک کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔فلسطینی نمائندوں کے وکیل **پال ریکلر (Paul Reichler)  نے کہا کہ عدالت کے یہ مشاہدات واضح کرتے ہیں کہ اسرائیل اپنے بین الاقوامی فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہا ہے۔یو این آر ڈبلیو اے (UNRWA) وہ اقوام متحدہ کا ادارہ ہے جو لاکھوں فلسطینیوں کو تعلیم، صحت اور ریلیف فراہم کرتا ہے۔ اس کے ملازمین کی تعداد 30 ہزار سے زائد ہے۔اقوام متحدہ نے اگست 2024 میں تصدیق کی تھی کہ یو این آر ڈبلیو اے کے نو ملازمین ممکنہ طور پر 7 اکتوبر 2023 کے حماس حملے میں ملوث تھے، جس کے بعد انہیں برطرف کر دیا گیا۔
دوسری جانب اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اکتوبر 2024 میں غزہ میں ہلاک ہونے والا ایک یو این آر ڈبلیو اے ملازم دراصل حماس کا کمانڈر تھا۔اگرچہ عالمی عدالتِ انصاف کی یہ رائے مشاورتی (advisory opinion) ہے، جس کا قانونی نفاذ لازم نہیں، تاہم یہ بین الاقوامی سطح پر انتہائی اثر انگیز قرار دی جاتی ہے۔ ایسے فیصلے اقوام متحدہ، رکن ممالک اور دیگر عدالتوں کے لیے قانونی و اخلاقی رہنمائی کا درجہ رکھتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس فیصلے سے اسرائیل کی سفارتی، قانونی اور بین الاقوامی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے، جب کہ فلسطینیوں اور ان کے حامی ممالک کے لیے یہ ایک اہم سیاسی و قانونی کامیابی ثابت ہو سکتی ہے جو مستقبل میں مذاکرات اور ثالثی میں ان کے مؤقف کو تقویت دے گی۔

اسرائیل اس سماعت کا براہِ راست فریق نہیں تھا، تاہم اس نے عدالت کے دائرہ اختیار اور کارروائی کو "سیاسی اور جانبدار” قرار دیا۔عدالت کی ایسوسی ایٹ صدر، جج جولیا سیبوٹانڈے (Julia Sebutande) نے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کی رائے "غیر جانبدار اور متوازن” نہیں کیونکہ اسرائیل کے دلائل کو مناسب طریقے سے نہیں سنا گیا۔
ان کے مطابق عدالت نے تنازع کے تاریخی، علاقائی اور سفارتی پہلوؤں — جیسے **صہیونی ریاست کا قیام، برطانوی مینڈیٹ کے دور کی سرحدیں، اسرائیل کے سیکیورٹی خدشات اور اوسلو معاہدے کا فریم ورک کو نظر انداز کر دیا۔سیبوٹانڈے نے مزید کہا کہ ریاستی رضامندی کے اصول کو نظر انداز کرنا کسی بھی ملک کے لیے ایسے فیصلے قبول کرنا مشکل بناتا ہے، اور اس طرح کے عدالتی اقدامات مذاکراتی عمل کو متاثر کر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ عالمی عدالتِ انصاف نے 2024 میں ایک اور مشاورتی رائے دیتے ہوئے قرار دیا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقوں پر قبضہ غیر قانونی ہے اور اسے فوراً ختم کیا جانا چاہیے۔عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ چونکہ اسرائیل ایک قابض قوت ہے، اس لیے وہ **فلسطینی عوام کے انسانی حقوق کے تحفظ کا ذمہ دار ہے۔

 

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو  800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنا مختصر  تعارف کے ساتھ URDUWORLDCANADA@GMAIL.COM پر ای میل کردیجیے۔

امیگریشن سے متعلق سوالات کے لیے ہم سے رابطہ کریں۔

کینیڈا کا امیگریشن ویزا، ورک پرمٹ، وزیٹر ویزا، بزنس، امیگریشن، سٹوڈنٹ ویزا، صوبائی نامزدگی  .پروگرام،  زوجیت ویزا  وغیرہ

نوٹ:
ہم امیگریشن کنسلٹنٹ نہیں ہیں اور نہ ہی ایجنٹ، ہم آپ کو RCIC امیگریشن کنسلٹنٹس اور امیگریشن وکلاء کی طرف سے فراہم کردہ معلومات فراہم کریں گے۔

ہمیں Urduworldcanada@gmail.com پر میل بھیجیں۔