اردوورلڈ کینیڈا ( ویب نیوز )صدر کو لکھے گئے خط میں سیکرٹری وقار احمد نے ڈاکٹر عارف علوی سے درخواست کی ہے کہ وہ انہیں عہدے سے ہٹانے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور ان سے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) یا کسی اور ایجنسی سے تحقیقات کرائیں۔
یہ اقدام صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے معاملے پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو اپنے سیکرٹری وقار احمد کی خدمات واپس کرنے کے بعد سامنے آیا ہے۔
صدر سیکرٹریٹ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر کے سیکرٹری وقار احمد کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں رہی اور انہیں فوری طور پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں تبدیل کر دیا گیا۔
وقار احمد نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ ‘اس کا مقصد کچھ حقائق کو واضح کرنا ہے، میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ میں بلوں کے حوالے سے کسی بے ضابطگی کا ذمہ دار نہیں ہوں۔
صدر کے ٹویٹ نے نیاپنڈوراباکس کھول دیا،ایسابحران پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار آیا،شیخ رشید
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ‘تاخیر اور خلاف ورزی کے الزامات کے برعکس بلوں سے متعلق دستاویزات ابھی تک صدارتی ایوانوں میں موجود ہیں، میری خدمات واپس کرنے کا فیصلہ انصاف پر مبنی نہیں ہے۔
وقار احمد نے کہا کہ صدر نے آرمی ایکٹ (ترمیمی) بل پارلیمنٹ کو منظور یا واپس نہیں کیا، بل سے متعلق فائلیں 21 اگست تک سیکرٹری آفس کو واپس نہیں کی گئیں۔
انہوں نے صدر پر زور دیا کہ وہ اس معاملے کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) یا کسی متعلقہ ایجنسی سے تحقیقات کرائیں تاکہ حقیقت سامنے آئے۔
صدرکو وہ فائل دکھانی ہوگی جس میں لکھا ہے کہ وہ بل واپس کررہے ہیں،اشتر اوصاف
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر کوئی غلط کام ثابت ہوا تو ذمہ داروں کا احتساب ہونا چاہیے، میں سپریم کورٹ یا کسی اور عدالت کے سامنے گواہی دینے کے لیے تیار ہوں، اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ریکارڈ پیش کروں گا۔ .
وقار احمد نے واضح کیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ (ترمیمی) سرکاری اوقات کے بعد صدر مملکت کو موصول ہوا، اسے 9 اگست کو صدر مملکت کو بھیجا گیا اور صدر کو دونوں بلوں سے متعلق حقائق سے مکمل طور پر آگاہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت صدر کو 10 دن کے اندر بل کی منظوری دینا ہوتی ہے اور اسی شق کے تحت وہ اتنے ہی دنوں میں بل کو دوبارہ غور کے لیے پارلیمنٹ کو بھیج سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا صدر نے نہ تو اس بل کی منظوری دی اور نہ ہی اسے پارلیمنٹ کو واپس بھیجا اور یہ بل 21 اگست تک صدر کے دفتر میں رہا۔